کیا بنگال میں بھی ’تقسیم کی سیاست‘ کامیاب ہوگی؟
عادل فراز
مغربی بنگال سمیت چار دیگر ریاستوں میں انتخابی بگل بج چکاہے ۔پانچوں ریاستوں کے انتخابات میں مغربی بنگال کے انتخابی نتائج پر پورے ملک کی نگاہیں مرکوز رہیں گی ۔کیونکہ یہاں بی جے پی کا مقابلہ ترنمول کانگریس سے نہیں بلکہ امیت شاہ اور نریندر مودی کا مقابلہ ممتابنرجی سے ہے ۔بی جے پی بھی اسی ذہنیت کے ساتھ انتخابی تشہیر میں مصروف ہے اور اپنے تمام ایسے رہنمائوں کو میدان میں اتاردیاہے جن کی ’تقسیم کی سیاست‘ پر انہیں پورا اعتماد ہے ۔اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سمیت بی جے پی کے تمام بڑے رہنما مغربی بنگال پہونچ رہے ہیں اور ممتابنرجی کو ’ای وی ایم ‘ کا جھٹکا دینے کی بات کہہ رہے ہیں ۔ بنگال میں مرکزی وزیر نتن گڈکری کا ’ ای وی ایم ‘ پر اس قدر اعتماد کا اظہار عوام میں شکوک وشبہات کو جنم دیتاہے کیونکہ ’ ای وی ایم کا جھٹکا‘ ہر بار بی جے پی مخالف جماعتوں کو ہی کیوں لگتاہے ۔ہر ریاست میں الیکشن کے بعد ای وی ایم موضوع بحث ہوتی ہے کیونکہ بی جے پی کے امیدوار ایسے مارجن سے کامیاب ہوتے ہیں کہ ہزار ہا کوششوں کے بعدبھی ای وی ایم موضوع بحث بن ہی جاتی ہے ۔ مگر سرکار اور الیکشن کمیشن کے بقول ای وی ایم محفوظ ہے اور اس سے کسی طرح کی چھیڑ چھاڑ ممکن نہیں !جبکہ ہندوستان سے پہلے جن ممالک میں ’ای وی ایم ‘ سے انتخابات کرائے جاتے تھے آج وہاں ’ای وی ایم ‘ کے بغیر انتخابات ہورہے ہیں ،کیونکہ ان ممالک کا دعویٰ ہے کہ ’ ای وی ایم ‘ محفوظ نہیں ہے اور اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے ۔بہر حال ہم تو اپنی سرکار کے ہر قول کو قول فیصل اور الیکشن کمیشن کے ہر دعویٰ کو حرف آخر سمجھتے ہیں کیونکہ ہم سوال کرنے کی سزا جانتے ہیں ،اللہ جانے کب کس کے گھر سی بی آئی اور ای ڈی کے ذریعہ دھاوا بول دیا جائے ۔اس لیے ’ای وی ایم ‘ پر ہمیں پورا یقین ہے کہ وہ جو فیصلہ کرے گی وہی صحیح ہوگا
پانچ ریاستوں کے انتخابات میں مغربی بنگال کو اس لیے اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہاں بی جے پی کا مقابلہ ممتابنرجی سے ہے ۔بنگال میں ممتا بنرجی کو ویسی ہی مقبولیت حاصل ہے جیسی مقبولیت ملک میں وزیر اعظم مودی کو حاصل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اپنی ساری توانائی بنگال پر صرف کررہی ہے ۔اس کے اہم لیڈران بنگال پہونچ کر ممتا بنرجی کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہیں اور ترنمول کانگریس کے کارکنان کے ساتھ دھمکی آمیز لہجے میں بات کی جارہی ہے تاکہ ممتا بنرجی کے سیاسی خیمے میں نقب لگائی جاسکے ۔اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے حسب توقع ایسے موضوعات کو انتخابی جلسے میں موضوع گفتگو قراردیا جن پر وہ خود عمل پیرا نہیں ہوسکے ۔انہوں کہاکہ ’ رام مخالفین کے لیے اس ملک میں کوئی جگہ نہیں !‘‘اب یہ تو یوگی جی ہی بتلا سکتے ہیں کہ ہندوستان میں ’ رام مخالف‘ کون ہے ؟ کیونکہ بلا تفریق مذہب و ملت ’رام جی ‘ کا مذہبی تقدس اور ان کا احترام ملحوظ رکھا جاتاہے ۔انہوں نے کہاکہ ’کبھی نیشنل ازم کا گہوارہ رہے بنگال کی آج شناخت لاقانونیت،دہشت گردی اور بدعنوانی سے ہوتی ہے ‘‘۔بنگال کی لاقانونیت پر بات کرتے ہوئے یوگی جی اترپردیش کے جنگل راج کو کیسے بھول سکتے ہیں ۔کیا وہ بھول گئے کہ اترپردیش میں خواتین محفوظ نہیں ہیں ۔کس طرح لڑکیوں کے ساتھ وحشت آمیز سلوک برتا جارہاہے ۔ہاتھرس کے واقعے کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے کہ جہاں یوگی جی کی پولیس کے ذریعہ غیر اخلاقی اور غیر قانونی طورپر آبرو ریزی کا شکار لڑکی کی آخری رسومات ادا کرادی گئی تھیں ۔پولیس نے مبینہ طورپر کہا تھاکہ لڑکی کے ساتھ زنا نہیں کیا گیا لیکن اس کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ واضح کردیا گیا ہے کہ لڑکی آبروریزی کا شکار ہوئی تھی ۔ہاتھرس کے واقعہ کے بعد کیا اترپردیش میں زنا کی وارداتیں کم ہوئی ہیں ؟ یہ سوال یوگی جی سے پوچھنے کی کسی میں ہمت نہیں ہے ۔لاقانونیت کی بات کی جائے تو ہندوستان میں اترپردیش اس کی پہلی مثال بن کر ابھرے گا ۔یہاں ہر شعبہ ٔ زندگی میں لاقانونیت کا راج ہے خواہ وہ سرکاری محکموں میں رشوت خوری ہو یا پھر فرضی انکائونٹر کے معاملات ہوں ۔وکاس دوبے کے ڈرامائی انکاونٹر کو آج تک پولیس صحیح ثابت کرنے میں ہلکان ہوئی جارہی ہے ۔اور بھی نہ جانے کتنی لاقانونیت کی مثالیں ہیں جن پر یوگی جی سے سوال کیا جاسکتاہے مگر سوال ’وزیر اعلیٰ ‘ اور ’سیاسی رہنمائوں ‘ سے کیا جاسکتاہے ’مذہبی رہنمائوں ‘ اور ’بابائوں ‘ سے سوال پوچھنے کی جرأت کس میں ہے ؟۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے متشدد مزاج کے مطابق بنگال میں بھی ترنمول کانگریس کے کارکنان سے دھمکی آمیز لہجے میں بات کی جو یقیناََ ایک وزیر اعلیٰ کے شایان شان نہیں تھا ۔انہوں نے کہاکہ بنگال میں بی جے پی کی حکومت بنتے ہی ۲۴ گھنٹے کے اندر مذبح خانے اور گئوکشی پر پابندی عائد کردی جائے گی ۔اور ترنمول کانگریس کے غنڈے گلے میں تختیاں ڈال کر رحم کی بھیک مانگتے نظر آئیں گے ‘‘۔ انہوں نے مزید کہاکہ ’’ممتا حکومت میں درگا پوجا پر پابندی لگائی جاتی ہے مگر محرم کا جلوس نکلانے کی اجازت دی جاتی ہے ۔گئوکشی کھلے عام ہوتی ہے اور گایوں کی اسمگلنگ پر کوئی روک نہیں ہے ۔لو جہاد کے معاملات پر بھی سرکار خاموش رہتی ہے ‘‘۔ اترپردیش میںجیسے ہی یوگی آدتیہ ناتھ نے زمام اقتدار سنبھالی تھی ،اس کے فوراََ بعد مذبح خانوں پر پابندی لگادی گئی تھی ۔مگر اس پابندی کا انجام کیا ہوا ۔آج چند شرایط کےساتھ مذبح خانے کھلے ہوئے ہیں ۔ہاں ’گئوکشی ‘ کے نام پر بی جے پی کارکنان کے ذریعہ معصوم لوگوں کے ساتھ مارپیٹ عام بات ہے ۔’گئو کشی ‘ کے نام پر بی جے پی کارکنان کو قانون کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی پوری اجازت ہے اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے ۔اگر بنگال میں بی جے پی برسراقتدار آتی ہے تو مذبح خانے تو بند نہیں ہوں گے کیونکہ اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے ،اب تک مذبح خانے کھلے ہوئے ہیں اور حکومت نے لائسنس جاری کیے ہیں ،مگر ’گئو کشی ‘ کے نام پر ان کے کارکنان غنڈہ گردی سے باز نہیں آئیں گے،یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں ۔اس وقت مرکز میں بی جے پی کی سرکار ہے ،اگر گائے کشی کا معاملہ ان کی نظر میں اتنا ہی سنگین ہے تو پھر وہ گائے کشی پر مکمل پابندی کے لیے قانون کیوں نہیں بنادیتے ۔الگ الگ ریاستوں میں گائے کشی کے نام پر ووٹ مانگے کی کیا ضرورت ہے ۔جس طرح بی جے پی راتوں رات قانون سازی میں مہارت رکھتی ہے ،گائے کشی پر بھی اسی طرح قانون بنایا جاسکتاہے تاکہ ملک میں ’گائے ماتا ‘ کی حفاظت ہوسکے ۔ساتھ ہی انہیں سڑکوں پر آوارہ گھومتی گایوں کے لیے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ ’ڈائنا سور ‘ کی طرح گایوں کی نسل بھی تاریخ اور میوزیم کا حصہ نہ بن جائے ۔رہا ’ لو جہاد ‘ کا معاملہ تو اس پر سرکاری ایجنسیوں اور عدالتوں کی رپورٹ موجود ہے کہ ’ لوجہاد‘ نام کی چڑیا ہندوستان میں موجود نہیں ہے ۔یہ صرف ’تقسیم کی سیاست‘ کا ایجنڈہ ہے جس پر بی جے پی عمل پیراہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی بنگال میں انتخابی تشہیر کا آغاز کردیاہے ۔وزیر اعظم نے روایت کےمطابق ’بنگال کو ’سونار بنگلہ‘ بنانے کے عزم کا اعلان کیا ۔انہوں نے کہاکہ ہم بنگال کی ترقی ،سرمایہ کاری ،بنگالی ثقافت کی حفاظت اور تبدیلی کو یقینی بنانے کا وعدہ کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ اگلے ۲۵ سال بنگال کے لیے بہت اہم ہیں ۔جب ملک ۱۰۰ واں یوم آزادی منائے گا اس وقت بنگال ملک کی قیادت کرے گا ‘‘۔ ظاہرہے بنگال کی یہ قیادت بی جے پی حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔وزیر اعظم مودی ہر ریاست میں اسی طرح کی تقریر کرتے ہیں اور اس ریاست کی ترقی اور خوشحالی کے بے شمار وعدے کرتے ہیں مگر اقتدار کی کرسی ملتے ہی ان کی حکومت ایک مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا نظر آتی ہے جس میں ترقی اور خوشحالی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔تعجب یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اب تک کسی ریلی میں مہنگائی اور زوال پذیر معیشت پر کلام نہیں کیا ۔کیونکہ ان کے مطابق پیٹرول ،ڈیزل اور گیس کے داموں کی قیمت بی جے پی حکومت میں کانگریس کی سابقہ پالیسیوں کی وجہ سے بڑھ رہی ہے ۔زوال پذیر معیشت کی ساری ذمہ داری نرملا سیتار من کی ناقص حکمت عملی پر نہیں بلکہ پی ۔چدمبرم اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے غیر ضروری منصوبوں کی وجہ سے ہے ۔اس لیے وزیر اعظم ایسے موضوعات پر بات ہی نہیں کرتے جن کی ذمہ داری اپوزیشن جماعتوں پر عائد ہوتی ہے ۔وہ تو بنگال کو ’سونار بنگلہ ‘ بنانے کی بات کرتےہیں،مگر جب ’سونار بنگلہ ‘ وجود میں نہیں آئے گاتو اسکی ساری ذمہ داری ممتا بنرجی کے سر عائد کردی جائے گی ۔
بہرحال! مغربی بنگال میں ابھی انتخابی تشہیر کا آغاز ہواہے ،یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ ابھی ہمارے سیاسی لیڈران اپنے معیار سے کتنا نیچے گرتے ہیں ۔کیونکہ جس طرح کی زبان سیاسی گلیاروں میں استعمال کی جارہی ہے یہ زبان شرفاء کی نہیں ہے ۔’تقسیم کی سیاست ‘ کے بجائے ترقی اور خوشحالی کے موضوعات زیر بحث نہیں ہیں کیونکہ ملک کی نجکاری کی جارہی ہے تاکہ ترقی اور خوشحالی کی ساری ذمہ داری پرائیویٹ کمپنیوں کے سپرد کر دی جائے ۔اس کے بعد ان موضوعات پر سرکار کے بجائے پرائیویٹ کمپنیوں سے سوالات کیے جائیں گے ۔