از۔ عارف نقوی

ایک دن ہمارے گھر کی بالکونی پر ایک خوبصورت پرندہ کہیں سے اڑتا ہوا آگیا۔ کاسنی  رنگ  پرہلکی ہوئی چمکتی زردی ۔کاکا توا کہوں یا کوئی اور نام دوں۔لیکن تھا بہت خوبصو ر ت سر پر کلغی ایسے لگائے جیسے کسی ملکہ کا تاج  ہویا کسی شاہی نائی نے اس کے بال قرینے سے اس طرح سجائے ہوں کہ وہ  سر اٹھا کر اپنے حسن پرغرورکرے۔پرندہ ہماری بالکونی کی کگر پر بیٹھ کر گارہا تھا جیسے کہہ رہا ہو  :’’میں ہوں سندر پنچھی مجھ پر سب کا دل للچائے‘‘۔ میری اہلیہ نے کہا :  دیکھو کون اتنی سریلی سیٹیاں بجا رہا ہے۔  میں نے کہا نہیں گنگنا رہا ہے ۔ اور کمرہ کا دروازہ کھول دیا۔ 

وہ پرندہ اڑتا ہوا سیدھا ڈائننگ روم میں چلا آیا اور میری کتابوں کی الماری پر بیٹھ گیا۔ جیسے کوئی پروفیسر کتابوں کا جائزہ لینے کے لئے آیا ہو۔ لیکن میں جانتا تھا کہ ہر مخلوق کی کمزوری بھوک اور پیاس ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک برتن میں کچھ پانی رکھ دیا۔ وہ پرندہ فوراً پانی
کے کٹورے پر ٹوٹ پڑا۔ پھر ادھر ادھر مڑ کر دیکھا اور میرے کندھے پر آکر بیٹھ گیا۔زندگی میں یہ میرا پہلا تجربہ تھا کہ ایک اجنبی وہ بھی پرندہ اس بے تکلفی اور اتنی محبت سے میرے ساتھ پیش آئے ۔ جبکہ اسے یہ نہیں معلوم ہے کہ میں اس کا شکاری ہوں یا دوست۔پرندہ میرے کان کے پاس جاکربال کھجانے لگا۔ جیسے کچھ راز کی باتین کہنا چاہتا ہو۔ میںاس کی زبان سمجھ گیا اور بیگم سے کہا:
’’انگڑد ، شاید یہ بھوکا ہے۔ اسے کچھ کھانے کو دیدو۔‘‘


وہ پرندہ ہمارے گھر کا ایک رکن بن گیا۔ ہم نے اس کا نام ’شہزادہ لونی‘ رکھا۔ اس کے لئے بازار سے ایک بڑاسا پنجڑا لا کر
رکھ دیا ۔مگر اس کے پٹ بند نہیں کئے۔وہ روز صبح ہمیں اپنی چونچ پھیلا کر نئے نئے گیت سنا تا۔ پیار بھری نظروں سے ہماری طرف دیکھتا۔
گرمیوں میں انگرڈ اس کے نہانے کے لئے ایک چھوٹے سے برتن میں پانی رکھ دیا کر تی اور وہ اس میں غوطے لگاتا اور پروں
کو پھیلا کر نہانے کی کوشش کرتا کہ ہماری کھانے کی میز بھیگ جاتی۔ پھر وہ پر سکھا کر اپنے پنجرے میں چلا جاتا اور کوئی نیا گیت گانے لگتا۔


مجھے اپنا بچپن یاد آجا تا۔ والد کی وفات کے بعد سے میں نے اپنا بچپن لکھنئو چکبست روڈ کے ایک بنگلے میں اپنی دادی ، چچا اور
ان کے بیوی بچوں کے ساتھ گزارا تھا۔ صرف اتوار کو اپنی والدہ اور نانا کے پاس پنجابی ٹولے میں چلاجاتا تھا۔ دونوں جگہ بہت سے پرندوں اورجانوروں سے سابقہ رہتا تھا۔


میرے چچا کے گھر کے سامنے اور پیچھے ان کے دو خوبصورت بغیچے تھے، جو منڈیروں سے گھرے تھے اور بڑے بڑے اشوک کے پیڑوں اور خوبصورت پھولوں کی کیاریوں سے سجے رہتے تھے۔ چوہے، نیولے ، خرگوش، اور رنگ برنگے گرگٹان جو ذرا سی آہٹ پر رنگ
بدل لیتے تھے اور دیواروںسے چمٹی چھپکلیاں جو پتنگوں کو کھا جاتی تھیں اور پیڑوں پر اچھلتی ہوئی گلہریاں جو اپنے بچوں کو چھتوں کے کونے میں سوراخوں میں پالتی تھیں اور اگر وہ کبھی نیچے گر جاتے تھے تو ہم بچے روئی کودودھ میں بھگوکر انہیں پلاتے اور پالتے تھے۔ پھر بڑا کرکے چھوڑ دیتے تھے۔ ہمارے گھرمیں مرغیوں کا ایک بڑا سا پنجڑا بھی تھا جہاں طرح طرح کی مرغیاں انڈے دیا کرتی تھیں۔ اس کے قریب ہی بڑے سے پنجڑے میں ایک کالی پہاڑی مینا تھی ، جس کے کانوں کی زرد زرد لویں اس کے حسن کو اس طرح نکھارتی تھیں جیسے کسی کالے برقعے میں سے چمکتی آنکھیں ’’جمالو کھانا لائو! جمالو کھانا لائو ‘‘ کی خوش کن صدائیں نکالتی تھی اور ایک پہاڑی طوطا جسے میری دادی نے سکھا دیا تھا: ’’ مٹھو ، نبیجی بھیجو! نبیجی بھیجو!‘‘ چمن میں اشوک اور گلہڑکے پیڑوں پر کالے کالے کوّے دن بھر چلایا کرتے تھے اور اپنے گھونسلے بناتے تھے۔ لیکن جب کوئی کویل ’’کو، کو‘‘ کرتی کسی پیڑ کے قریب آتی تو سب کوّے شور مچاتے ہوئے اس کے شکار پر نکل جاتے۔ یہاں تک کہ وہ کوّا بھی جو گھونسلے میں بیٹھا انڈوں کی رکھوالی کر رہا ہوتاتھا اپنے انڈوں کو بھول کر کوئل کا تعاقب کرنے لگتا تھا اور مادہ کویل کو موقع مل جاتا کہ کوّے کے انڈے نیچے پھینک کر اپنے انڈے وہاں دیدے اور بیچارہ کوّے کا جوڑا انہیں اپنا سمجھ کر سیتا رہتا۔ہمارے گھر کے عقب میں نوکروں کے جو کوارٹر تھے وہاں ڈرائیور پیٹر نے بہت سے کبوتر ایک بڑی سی ڈھابلی میں پال رکھے تھے اور ان کے لئے ایک اونچا مچان بنادیا تھا۔ یہ اونچائی پراڑنے والے کبوتر تھے سفید بے داغ، ہرے ، دوباز، مکھی ، جو صبح سے شام تک آسمان پر اڑتے رہتے تھے اور شام ہونے سے پہلے اپنے اڈّے پر واپس آجاتے تھے۔ کبھی کبھی ہم شکاری پرندوں کو جنہیں ہم ’بہری‘ اور’ جنبش ‘ کہتے تھے آسمان پر اڑتے ہوئے کبوتروںپرجھپٹتے اور ان کا تعاقب کرتے ہوئے دیکھتے تھے اور کبوتروں کی سلامتی کی دعائیں مانگتے تھے۔اور اگر بہری یا جنبش نے کبوتر کو پکڑ لیا توآنسوئوں کو روکنا مشکل ہو جاتا تھا۔ بہری جوکہ جنبش سے کچھ چھوٹی ہوتی تھی کبوتر کا نرخرہ ہوا میں ہی کاٹ دیتی تھی۔ لیکن چیل نما جنبش اسے پکڑ کر کسی پیڑ پر بیٹھتا اور اس کے پر نوچنا شروع کردیتا تھا۔ ہم سائیکل سے پیچھا کرتے تھے اور کبھی کبھی غلیل کی مدد سے جنبش پر کنکرمار کر کبوتر کو چھڑا لیتے تھے اور پھر اس کے پھٹے ہوئے پوٹے کو سوئی دھاگے سے سی کر اور اس کبوتر کی ہی بیٹ لگاکر اسے بچا لیتے تھے۔حالانکہ ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ سوئی کو ماچس سے جلا کر اس کا زہر ماردینا چاہئے۔ حالانکہ وہ کبوتر اچھا ہونے کے بعد پھر کبھی اونچا نہیں اڑتا تھا۔ لیکن ہم اس کی نسل کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔


پنجابی ٹولے میں میرے نانا کے گھر میں بھی مرغیاں اور کبوتر بہت تھے۔ وہاں اونچے اڑنے والے کبوتر ہی نہیں بلکہ خوبصورت سینوں پرچتیوں والے کالے اور کتھئی شیرازی، مور کی طرح دم اٹھائے سفید لقّے اور دوسرے طرح طرح کے خوبصورت کبوتر بھی تھے۔ کبھی کبھی کوئی نیولا کسی کبوتر یا مرغی کو پکڑ لیتا تو ہم اسے چھڑا کر ہلدی اور ایک خاص پتّا ، جسے غالباً ککروندا کہتے تھے ، لگاتے۔ کبھی جنگلی بلّی آتی تو اسے بڑے سے بلّی دان میں پکڑ کر اور پھر ایک بورے میں بند کر کے چھوٹی لائن کے ریلوے اسٹیشن پر، جسے’ سٹی اسٹیشن‘ کہتے ہیں، لے جاتے اور ٹرین میں بورے کو چھوڑ کر جب ٹرین رینگنے لگتی تو اتر جاتے۔ او ر کبھی شرارت سے کبوتر کے انڈے ہٹا کر اس کی ڈھابلی میں مرغی کا اڈا رکھ دیا کرتے اور اس انڈے کے ساتھ کبوتر کی ممتا اور پدری محبت پر محظوظ ہوتے اور بیسویں یا اکیسویں دن کا انتظار کرتے تاکہ چوزہ نکلتے ہی اسے وہاں سے ہٹا دیں اورکبوتر گھبرا کر اسے نہ مارنے نہ لگے ۔ پھر ہم اس ریشم کے گالے کے ساتھ کھیلتے، اسے ’’ کِٹ کِٹ‘‘ کرکے انگلی کو فرش پر ٹھونکتے ہوئے دانہ کھلاتے، جب تک کہ اس کے پر نہ نکلنے لگتے اور وہ کچھ دن کے لئے بدصورت لگنے لگتا۔


اب اپنے گھر میں اس نئے مہمان کو دیکھ کر نہ جانے کیوں مجھے اپنا بچپن یاد آگیا تھا۔ میری بیٹی نے کہا: ’’ہو سکتا ہے یہ کسی پڑوسی
کا پرندہ ہو۔ وہ اسے ڈھونڈھ رہا ہو گا۔کسی دوسرے کا پرندہ اپنے گھر پر رکھنا جرم ہے۔‘‘ چنانچہ میں نے آس پاس کے سارے گھروں کے
دروازوں پر نوٹس لگا دیا کہ ہمارے وہاں ایک اجنبی پرندہ آ گیا ہے۔ اگر کسی کا ہے تو آکر لے جائے۔ لیکن ہفتوں گزر گئے کسی نے خبر نہ لی۔


کئی بار سوچا کہ اسے چھوڑ دیں۔اڑا دیں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ اس قسم کا پرندہ جرمنی میں نہیں ہوتا ہے۔ دوسرے پرندے اسے مارڈالیں
گے۔ غرضیکہ یہ بن بلایا مہمان واقعی میں اب ہمارے گھر کا ایک فرد بن گیا تھا۔ اس سے پہلے بھی ہمارے گھر میں کئی بار چڑیاں رہ چکی تھیں۔آسٹریلین برڈس لیکن ایسا شاندار، ملنسار اور عقلمند پرندہ نہیں آیا تھا۔ کاش کہ کسی پارلیمنٹ کا رکن یا کسی سیاسی پارٹی کے بڑے لیڈر کا مشیر ہوتا تو وہ اس سے انسیت اور محبت کے مطلب سیکھ لیتا۔


ہمارے وہاں جو بھی آتا اس پرندے کی تعریف کرتا۔ ایک بار میرے ایک دوست ڈاکٹر مظفر شیخ مانچسٹر برطانیہ سے جرمنی آئے
تو اسی کمرے میں قیام کیا جہاں لونی کا پنجڑہ تھا۔ وہ ان سے اس قدر ہل گیا کہ ان کے سر پر آکر بیٹھ جاتا تھا۔ وہ بھی اس کے گرویدہ ہو گئے تھے۔ آج تک یاد کرتے ہیں۔ مجھ سے تو وہ اتنا ہل گیا تھا کہ آکر ہاتھ پر، کندھے پر اور گردن پر بیٹھ جاتا تھا۔ کان کے پاس اپنی چونچ لے جاکر کھجانے لگتا تھا جیسے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ میرے گلاس میں کبھی کبھی چونچ ڈال کر پانی پینے لگتا تھا اور میں سینڈوچ کھاتا تھا تو وہ بھی اپنی چونچ بڑھا کر شریک ہو جاتا تھا۔ گرمیوں کے موسم میں میری اہلیہ اس کا پنچڑہ بالکونی میں لیجا کر پچکاری کی دھار سے اسے نہلاتی تو خوش ہو کر پھڑ پھڑانے لگتا۔ سارے پروں کو کھول دیتا۔جیسے کوئی شہزادہ تاج پوشی کے لئے تیار ہو رہا ہو اور قبا پہن رہا ہو۔


آج بھی ہم اپنے شہزادے کونہلانا چاہتے تھے۔ انگرڈ پنجڑے کو بالکونی میں رکھ کر پچکاری میں پانی بھر رہی تھی۔ نہ جانے کیسے پنجڑے کا پٹ کھلا رہ گیا ۔اچانک وہ باہر نکلا دائیں بائیں دیکھا۔ پیڑوں پر چہچہا تی شڑیوں کی آوازیں سنیں۔ فضا میں اڑتے ہوئے کوّوں کی کائیں کائیں سنیں اور نہ جانے کیا سوچا کہ شہزادہ لونی بالکونی کی پتلی سی دیوار کی کگر پر جا کر بیٹھ گیا۔ اس سے پہلے کہ ہم اسے بلائیں وہ ہوا میں پرواز کرنے لگا۔درجنوں کائیں کائیں کرتے کوّے اس پر جھپٹ رہے تھے۔ لونی ہماری نظروں سے غائب ہو چکا تھا۔ میںاور انگرڈ ایک دوسرے کو کربناک نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے دنیا کا آج کاسارا منظر نگاہوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔