قربانی کی حقیقت اور اس کی روح
تحریر :مفتی شفیع احمد قاسمی (خادم التدريس جامعہ ابن عباس احمد آباد گجرات )
دنیا میں ہر چیز کی ایک صورت ہے، تو ایک اس کی روح ، اس کا ایک ظاہر ہوتا ہے، تو ایک اس کا باطن بھی ، ایسے ہی قربانی کی ایک ظاہری شکل و صورت ہے، اور ایک اس کی حقیقت واصلیت ہے، ایک موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، ما ھذہ الاضاحي یا رسول اللہ؟ اے اللہ کے پاک رسول یہ قربانی کیا چیز ہے،؟ عربی زبان سے واقفت رکھنے والے جانتے ہیں کہ کلام عرب میں لفظ،، ما،، حقیقت و ماہیت کے دریافت کیلئے موضوع ہے، گویا سائل نے یہ استفسار کیا کہ یا رسول اللہ قربانی کی حقیقت و ماہیت کیا ہے ؟ آپ نے جواباً ارشاد فرمایا ، سنۃ ابیکم ابراهيم، تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، اور سنت سے مراد طریقہ ہے، اب جواب کا ماحصل یہ ہوا کہ اضحیہ کی حقیقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ اور ان کا خاص مذاق ہے، اب ہمیں غور کرنا چاہیے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ کیا ہے، کیا انھوں نے راہ خدا میں بکرا یا دنبہ ذبح کیا تھا ؟نہیں، بالکل نہیں، اسلئے کہ خود قرآن مجید ان کےفعل ذبح ولد پر شاہد ہے کہ انہوں نے راہ خدا میں اپنے معصوم لختِ جگر کو قربان کیا تھا، ارشاد ہے یا بنی انی اری فی المنام، انی اذبحک فانظر ماذا تری قال یابت افعل ما تؤمر ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین، فلما اسلما و تلہ للجبین، نادیناہ ان یا إبراهيم، قد صدقت الرؤیا انا کذالک نجز المحسنین،اے برخوردار! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں، اس سلسلے میں تم غور کرو تمہاری کیا رائے ہے، خلیل اللہ کے لخت جگر نے جواب دیا، ابا جان! آپ کو جو حکم ہوا ہے آپ اسے کرگزرییے، اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے، پس جب دونوں نے حکم الہی کے سامنے اپنی گردن جھکا دی، اور حضرت خلیل اللہ نے انہیں پیشانی کے بل لٹایا ، تو پروردگار عالم نے پیار بھرے لہجے آواز دی، اے ابراہیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، اور ہم اسی طرح نیکوکاروں کو بدلہ دیتے ہیں، س سے تو یہ امر واضح ہوگیا کہ سیدنا خلیل اللہ کی سنت اصل میں ذبح ولد ہے، اسلئے کہ انہوں نے بلا واسطہ اپنے معصوم لخت جگر اسماعیل کی گردن پر ہی چھری چلائی تھی اور انہیں راہ خدا میں قربان کرنے کا پختہ عزم کیا تھا تاہم حضرت اسماعیل کے عوض جنت سے دنبہ کا آنا اور ذبح ہونا، درحقیقت خالقِ کائنات کی طرف سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان کا فدیہ تھا، اور اسی وجہ سے سیدنا اسماعیل کو ذبیح اللہ کے لقب سے موسوم کیا جاتا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ذبح ولد بھی سیدنا خلیل اللہ کی سنت نہیں ہے، اسلئے کہ سنت اس طریقہ کو کہا جاتا ہے جس پر مداومت وہمیشگی کے ساتھ عمل کیا گیا ہو ، اور ظاہر ہے کہ حضرت خلیل اللہ نے قربانی کے اس عمل کو اپنی پوری زندگی میں صرف ایک مرتبہ ہی کیا ہے، تو یہ سنت نہیں ہوسکتی، البتہ غور کرنا ہوگا کہ ان کا دائمی طریقہ کیا رہا ہے، اور کس عمل پر انہوں نے تواتر و تسلسل کے ساتھ عمل کیا ہے، اس سلسلے میں کتاب ہدایت نے سیدنا خلیل اللہ کی زندگی کے اس پہلو کو اجاگر کیا، اور بتایا کہ ان کا دائمی طریقہ ان کی اطاعت شعاری و سرافگندگی ہے، ارشاد ہے إذ قال لہ ربہ اسلم قال أسلمت لرب العالمين،یاد کیجئے اس وقت کو جب کہ حضرت خلیل اللہ سے اس کے پروردگار نے کہا، تم اپنے نفس کو سپرد کردو، تو انہوں نے کہا کہ میں نے پروردگار عالم کی اطاعت اختیار کر لی، اس سے معلوم ہوا کہ ان کا دائمی طریقہ اسلام نفس اور خود سپردگی ہے، ان کیلئے جب خدا کا جو حکم آیا ، اس کی اطاعت و سرافگندگی کی ، خدا نے مال مانگا ، تو مال اور جان مانگی تو اس سے بھی دریغ نہ کی ، حضرت خلیل اللہ کی پوری کا زندگی کا آپ جائزہ لیں، ہر محاذ پر ان کا یہی طریق کار رہا ہے، خواہ دہکتی ہوئی اس تاریخی آگ میں چھلانگ لگانے کا موقع ہو یا بے آب وگیاہ میدان میں بیوی سمیت اپنے شیرخوار بچہ چھوڑ دینے کی نازک گھڑی ہو، ایک خدا کی خوشی ورضا کیلئے اپنا سب کچھ اس کے دربار عالی میں پیش کردیا، درحقیقت یہی سیدنا خلیل اللہ کا دائمی طریقہ اور ان کی سنت رہی ہے، اسی کو صوفیاء فناء نفس کہتے ہیں، اور یہی قربانی کی حقیقت اور اس کی روح ہے، اور خالقِ کائنات کی ابدی کتاب سے اسی کی تائید وتوثيق ہورہی ہے، رب ذوالجلال کا پاک ارشاد ہے، لن ینال اللہ لحومھا ولا دمائھا ولکن ینالہ التقوی منکم ،ہرگز اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہونچتا، لیکن احکم الحاکمین کو تمہاری پرہیزگاری پہونچتی ہے، یعنی تمہارے دلوں کی وہ کیفیت پہونچتی ہے کہ کس جذبہ سے تم نے راہ خدا میں اس جانور کو قربان کیا ہے، کیا تم اپنے مالک کے حکم پر اپنی پیاری جان بھی نچھاور کرسکتے ہو ؟ اگر واقعی اس جذبہ سے سرشار ہو کر قربانی کی ہے تو آپ نے قربانی کی حقیقت اور اس کی روح کو پالیا ، آپ نے سنت ابراہیمی کو زندہ و تابندہ کرلیا اور آپ ثوابِ موعود کے مستحق قرار پائے، خود کشی کے بجائے اولاد کشی کیوں اب سوال یہ ہے کہ خود سپردگی اور اسلام نفس کا مقتضی تو یہ تھا کہ خدا کے دربار عالی میں اپنی محبوب جان فدا کرتے ، نہ کہ اپنے معصوم لخت جگراسماعیل کی جان، اس کا صاف اور واضح جواب یہ ہے، کہ خودکشی سے کہیں زیادہ کٹھن اور غمناک اولاد کشی ہے، اور یہ بات آفتاب نیم روز کی طرح ہر صاحب اولاد بخوبی محسوس کرسکتا ہے، اسلئے کہ انسان اپنی اولاد کے تحفظ و صیانت کے لیے اپنی جان تک گنوا دیتا ہے، اور دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ انسان جب خودکشی کا ارادہ کرتا ہے،تو یک لخت اپنی زندگی کے روشن چراغ کو بجھا لیتا ہے، اور ایک لمحہ میں دنیا کی ساری کلفت ومشقت سے اپنے کو آزاد کر لیتا ہے، لیکن اولاد کشی کے ارادے سے ہی بدن لرز اٹھتا ہے، ہاتھوں میں کپکپی طاری ہوجاتی ہے، پھر اگر قساوت قلبی اور سخت دلی سے اپنی اولاد کو ذبح کر ہی ڈالا تو یہ ایسا حادثہ جانکاہ ہے کہ پوری زندگی اس کی نظروں کے سامنے پھرتا رہیگا، اور زندگی بھر وہ اس اذیت و تکلیف سے اپنے کو سبکدوش نہیں کر پائے گا، اور یہ سب کے بس کا روگ نہیں ہے، رحمت حق بہانہ می جوید ،بہا نمی جوید اب سوال یہ ہے کہ ہماری قربانی سنت ابراہیمی کیسے ہوئی، اسلئے کہ انہوں نے تو اپنی اولاد ذبح کی اور ہم جانور ذبح کرتے ہیں،ع چہ نسبت خاک را باعالم پاکجواب اس کا یہ ہے کہ رب کائنات نے اپنے محبوب نبی کے صدقے اس امت مسلمہ پر خصوصی کرم فرمائی کی، اور یہ اعلان کیا کہ اے میرے حبیب کی امت!تم میرے لئے اپنی اولاد نہیں بلکہ اخلاص کے ساتھ جانور کی قربانی پیش کرو میں تمہیں صلبی اولاد قربان کرنے کے برابر ثواب دوں گا، اور اسی پر بس نہیں بلکہ ابراہیم میرے خلیل تھے، اس عمل پر جس قدر انعام واکرام کی برسات ان پر کی گئی ہے ، اجر و ثواب اور انعام واکرام کی وہی بارش تم پر بھی کی جائے گی، سبحان اللہ، مالک اپنے بندوں پر کیسے الطاف و عنایات کی بارش کررہا ہے،اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح نہج پر اس عظیم عبادت کی ادائیگی کی توفیق مرحمت فرمائے۔