نئی دہلی- کروناوائرس کی اس عالمی وبا کے دوران مسلم پرسنل لا بورڈ نے زوم پر مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد کیا اور متعدد امور و مسائل پر غوروخوض کے بعد کئی اہم فیصلے کئے۔ دو دن پر محیط اس میٹنگ کی صدارت بورڈ کے صدر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے کی اور کاروائی کو جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نے چلایا۔
بورڈ کے جنرل سکریٹری اور متعدد ارکان عاملہ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کی سی بی آئی (لکھنؤ) کے بابری مسجد انہدام کے ملزموں سے متعلق فیصلہ پر سخت حیرت اور دکھ کا اظہار کیا۔ کورٹ نے متعدد واقعاتی شہادتوں اور گواہوں کے بیانات اور خود ملزمین کے اقبال جرم کے باوجود ناکافی ثبوت کی بنا پر تمام ملزمین کو بری کردیا۔ نہ جانے کورٹ کس طرح کی شہادتوں کو معتبر سمجھتا ہے۔ بورڈ نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا کہ CBIاس فیصلے کو چیلنج کرے یا نہ کرے، بورڈ اس ناقابلِ فہم فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرے گا۔
بورڈ کے اجلاس میں ملک کی عدالتوں میں مسلم پرسنل لا سے متعلق جاری مقدمات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا اور قانونی کمیٹی کو ہدایات جاری کی گئیں۔ لیگل کمیٹی کے کنوینر یوسف حاتم مچھالا صاحب نے سابری مالا کیس کے ریویو سے متعلق ایک تفصیلی نوٹ عاملہ کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اس میں مذہبی آزادی، دستور کی دفعہ 25کا دائرہ اور کسی مذہب کے لیے کیا ضروری اور لازمی ہے جیسے سوالات زیربحث آئیںگے۔ اس فیصلے کا اثر مسلمانوں اور تمام مذہبی اقلیتوں کے ساتھ اکثریتی طبقہ کی مذہبی آزادی پر بھی پڑے گا۔ تفصیلی غورخوض کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ بورڈ بھی اس مقدمہ میں بحیثیت مداخلت کار شامل ہوگا۔
عاملہ کے اجلاس میں اس اندیشہ کا اظہار بھی ہؤا کہ رام مندر، دفعہ 370 کے بعد اس حکومت کا اگلا نشانہ یونیفارم سول کوڈ ہوسکتا ہے۔ مسئلہ کی نزاکت کے پیش نظر طے کیا گیا کہ اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ دیگر مذہبی طبقات، اقلیتوں اور سول سوسائٹی کے افراد سے تفصیلی ملاقاتیں کی جائیں نیز ایک تکثیری سماج کے لیے یونیفارم سول کوڈ کتنا مہلک اور نقصاندہ ہوسکتا ہے اس پر رائے عامہ ہموار کرنے کا مسئلہ بھی زیربحث آیا۔ یونیفارم سول کوڈ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے جنرل سکریٹری بورڈ کو مجاز گردانا گیا کہ وہ اس کے لیے ایک کمیٹی بنادیں تاکہ اس پر سیرحاصل کام کیا جاسکے۔
اجلاس میں حکومت کی طرف سے سی آرپی سی (Cr.PC) اور آئی پی سی میں اصلاحات کے لئے مرکزی حکومت کی قائم کردہ کمیٹی کا مسئلہ بھی زیربحث آیا۔ اکثر ارکان کا خیال تھا کہ کمیٹی کی مینڈیٹ کافی وسیع الاطرف ہے اور اس سے یہ اندیشہ بجاطور پر لاحق ہے کہ اس کی سفارشات بہت دور رس نتائج اور مضمرات کی حامل ہوںگی۔ ملک کے ماہرین قانون اور دانشوروں نے کمیٹی میں شامل افراد اور کمیٹی کے مینڈیٹ کو لے کر متعدد اندیشوں کا اظہار کیا ہے۔ ارکان عاملہ کا بھی یہی خیال تھا کہ مسلمان بھی ان سفارشات کی زد میں آسکتے ہیں چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ ماہرین قانون اور علماء پرمشتمل ایک کمیٹی قائم کرے اور سول سوسائٹی اور ماہرین قانون کے ساتھ مل کر اس مسئلہ کے تدارک کے لیے کام کیا جائے۔
اجلاس میں مساجد، مقابر، عیدگاہوں اور قبرستانوں سے متعلق مقدمات اور عدالتوں کے رویہ کا بھی جائزہ لیا گیا اور اہم فیصلہ کیے گئے