بے گناہوں کو مکمل انصاف دلانے تک ہماری قانونی جدوجہد جاری رہے گی: مولانا ارشدمدنی
جمعیۃعلماء ہند کی کوشش سے مزید 24لوگوں کی ضمانتیں منظور
نئی دہلی، 20 دسمبر 2020 جمعیۃ علماء ہند کی کوششوں سے دہلی فساد میں مبینہ طور پرماخوذ مسلم ملزمان کی ضمانت عرضداشتوں کی منظوری کا سلسلہ جاری ہے،آج مزید24 افرادکی ضمانت کی عرضیاں جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء کی کوششوں سے منظورہوگئیں،قابل ذکر ہے کہ اب تک نچلی عدالت اور دہلی ہائی کورٹ سے کل تیس افرادکی ضمانتیں منظور ہوچکی ہیں نیز مسلم نوجوانوں کی جیل سے رہائی کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے، گذشتہ روزایک ملزم کی جیل سے رہائی ہوئی ہے۔دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس شریش کیت نے ملزمین ریحان پردھان، ارشد قیوم، ارشاد احمد، محمد ریحان، ریاست علی، شاہ عالم، راشیدسیفی اور زبیر احمد کی مشروط ضمانت منظور کی ہے جبکہ ملزم زبیر احمد کی جیل سے رہائی عمل میں آچکی ہے۔ان تمام ملزمین کی ضمانتیں ایف آئی ار نمبر 117/2020, 80/2020,120/2020,119/2020 میں عمل آئی ہے جبکہ اس سے قبل ملزمین ریاست علی، شاہ عالم، راشید سیفی، ارشد قیوم،، محمد شاداب، محمد عابد، و دیگر ملزمین کی ضمانتیں کڑکڑڈوماسیشن عدالت کے جج ونود کمار یادو نے منظور کی تھی۔دہلی ہائی کورٹ اور نچلی عدالت نے ملزمین کو پچیس ہزار روپئے کے ذاتی مچلکہ پر ضمانت پررہا کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے، حالانکہ سرکاری وکیل نے ملزمین کی ضمانت پررہائی کی سخت لفظوں میں مخالفت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ملزمین کی ضمانت پر رہائی سے نقض امن میں خلل پڑسکتا ہے لیکن عدالت نے دفاعی وکلاکے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے ملزمین کی ضمانت عرضداشت منظور کرلی۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ملزمین کی پیروی ایڈوکیٹ ظہیر الدین بابر چوہان او ر ان کے معاون وکیل ایڈوکیٹ دنیش نے کی اور عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں پولس کی جانب سے چار ج شیٹ داخل کی جاچکی ہے اور ملزمین کے خلاف الزامات ڈائرکٹ ثبوت نہیں ہیں لہذا انہیں ضمانت پر رہا کیا جانا چاہئے، ملزمین پر تعزیرات ہند کی دفعات 147,148,149,436, 427 (خطرناک ہتھیاروں سے فساد برپا کرنا،آتش گیر مادہ یا آگ زنی سے گھروں کو نقصان پہنچانا،غیر قانونی طور پر جمع ہونا)اور پی ڈی پی پی ایکٹ کی دفعہ 3,4 (عوامی املاک کوآتش گیر مادہ یا آگ زنی سے نقصان پہنچانا) کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا اور ملزمین گذشتہ تین ماہ سے زائد عرصہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے۔ جمعیۃ علماء کے توسط سے ابتک دہلی ہائی کورٹ اور سیشن عدالت سے30 ضمانت عرضداشتیں منظور ہوچکی ہیں امید کی جاتی ہے کہ باقی لوگوں کی بھی ضمانتیں جلد منظورہوجایں گی۔ جمعیۃ علماء ہند نے دہلی فسادات میں پھنسائے گے سیکڑوں مسلمانوں کے مقدمات لڑنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی خصوصی ہدایت پر ملزمین کی ضمانت پر رہائی کے لیئے سیشن عدالت سے لیکر دہلی ہائی کورٹ تک عرضیاں زیر سماعت ہیں۔جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے دہلی فسادمیں پولس کے ذریعہ جبراًماخوذ کئے گئے مزید 24لوگوں کی ضمانت پر رہائی کا استقبال کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ محض ضمانت پر رہائی جمعیۃعلماء ہند کا مقصودنہیں بلکہ اس کی کوشش ہے کہ جن بے گناہ لوگوں کو فسادمیں جبراًملوث کیا گیا ہے ان کو قانونی طورپر انصاف دلایا جائے انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء کی ٹیم اسی نکتہ پر کام کررہی ہے اور ان لوگوں کی ضمانت پر رہائی وکلاء کے ٹیم کی پہلی کامیابی ہے لیکن ایسے لوگوں کو مکمل انصاف دلانے تک ہماری یہ قانونی جدوجہد جاری رہے گی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ کچھ اخبارات اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹوں نے دہلی فسادکی اصل کہانی کا پردہ چاک کردیا ہے، یہ افسوسناک سچائی دنیا کے سامنے آچکی ہے کہ تفتیش اور کارروائی کے نام پر اصل خاطیوں کو پولس نے بچالیا، اور ان بے گناہ لوگوں کو جن کا دوردورتک اس فسادسے کوئی تعلق نہیں تھا ملزم بنادیا گیا، اس کھلی ہوئی ناانصافی پر جمعیۃعلماء ہند خاموش بیٹھی نہیں رہ سکتی تھی، چنانچہ اس نے متاثرین کو مفت قانونی امدادفراہم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کیلئے تجربہ کاروکلاء کا باقاعدہ ایک پینل بھی تشکیل کیا انہوں نے یہ بھی کہا کہ پچھلے 70برسوں سے مذہب کی بنیادپر ہونے والے تشدد، مظالم اور فسادات کے خلاف جمعیۃعلماء ہند ایک سخت قانون بنانے کا مطالبہ کررہی ہے، جس میں کہیں فسادہونے کی صورت میں وہاں کی ضلع انتظامیہ کو جوابدہ بنانے کا التزام ہو، مولانا مدنی نے کہا کہ ہماراطویل تجربہ یہ ہے کہ ڈی ایم اورایس پی کو اگر اس بات کا خطرہ ہوکہ فسادہونے کی صورت میں خودان کی اپنی گردن میں قانون کا پھنداپڑ سکتاہے تو کسی کے چاہنے سے بھی کہیں فسادنہیں ہوسکتا، انہوں نے ایک بارپھر کہا کہ اس طرح کی قانون سازی کے ساتھ ساتھ ایک ایسے قانون کی بھی ضرورت ہے جو راحت، ریلیف اور بازآبادکاری کے کاموں میں بھی یکسانیت لائے اور حکام کو اس کا پابند بھی بنائے، لیکن افسوس ہندوستان جیسے عظیم کثیر تہذیبی اور کثیر مذہبی ملک میں اس طرح کا کوئی قانون موجودنہیں ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ اس بات میں اب کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ دہلی فسادمنصوبہ بند فسادتھا اوراس کے پیچھے فرقہ پرست طاقتیں کام کررہی تھی ، لیکن یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ بے گناہوں کو گرفتارکرکے تفتیش کی فائل کو تقریبا بند کردیا گیا، جو کردار اس فسادمیں مسلسل سامنے آتے رہے وہ اب بھی موجودہیں اوراسی طرح زہر افشانی بھی کررہے ہیں، مگر ان کو بے نقاب کرنے اور قانون کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جارہی ہے، انہوں نے کہا کہ ملک کے اتحاد، سالمیت اور اس کی گنگاجمنی تہذیب کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے، وہ مملکتیں تباہ وبربادہوجاتی ہیں جو اپنے شہریوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتی، یہ ایک بڑی سچائی ہے اور دنیا کی تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجودہیں، ملک اورقوم کی ترقی کاراز اتحادمیں ہی پوشیدہ ہیں انتشاروتفریق میں نہیں، اپنے ہی لوگوں کے ساتھ فرقے اور مذہب کی بنیادپر امتیازاورناانصافی کسی بھی مہذب معاشرہ کے لئے ایک بدنماداغ ہی