طالبان کا افغانستان اور مکروہ امریکی پالیسیاں
عادل فراز
سالہا سال کی جدوجہد کے بعد بالآخر افغانستان کے اقتدار پر طالبان مسلط ہوگئے ۔طالبان کا یہ دیرینہ خواب کبھی پورا نہیں ہوتا اگر امریکہ اس کے لیے زمین ہموار نہیں کرتا ۔امریکہ نے روایت کے مطابق اس طالبان کی حمایت کی جسے اس نے خود جنم دیا تھا اور پھر نیست ونابود کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔اشرف غنی بھی اسی کا لے پالک تھا مگر انسان ہمیشہ صلبی بیٹوں کو ترجیح دیتاہے اور لے پالکوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتاہے ۔یہی اشرف غنی کے ساتھ بھی ہوا ۔اشرف غنی کا ملک سے اس طرح فرار کرجانا ان کے حامیوں کے لیے ناقابل یقین عمل تھا ۔انہیں طالبان کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیے تھی یا پھر اقتدار کی منتقلی کرکے ملک چھوڑنا چاہیے تھا ۔مگر افغانستان کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر ان کا فرار اختیار کرنا ابھی سیاسی حکمت عملی نہیں تھی ۔ممکن ہے اس طرح فرار کرنے کا حکم بھی امریکہ نے ہی دیا ہو ۔کیونکہ طالبان کے اقتدار کے لیے امریکہ نے ہی زمین سازی کی ہے ۔افغانستان سے اچانک فوجوں کا انخلاء اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کرنا در اصل طالبان کو قبول کرنے کی راہ میں پہلا قدم تھا ۔اگر طالبان دہشت گرد ہیں تو پھر دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے کیا معنی ہیں ؟۔ اس سے پہلے امریکہ نے کسی دوسری دہشت گرد تنظیم کے ساتھ کبھی مذاکرات کیوں نہیں کیے ؟۔ امریکہ کی طالبان نوازی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے ۔فرق صرف اتناہے کہ ایک مدت تک طالبان امریکی پالیسیوں کے مخالف رہے اور جب انہیں اقتدار پر مسلط ہونےکے لیے امریکہ کی مدد درکار ہوئی تو ایک بارپھر طالبان اپنے خالق سے جا ملی !
طالبان کا آغاز اور اسکے تدریجی ترقیاتی مراحل کا مطالعہ انتہائی اہم ہے ۔اپنے آغاز میں طالبان طلباء کی ایک چھوٹی سی تنظیم تھی جسے ملا عمر نے 1994 میںتشکیل دیا تھا ۔اس جماعت کا آغاز ملا عمر نے اپنے آبائی شہر قندھار سے کیا تھا جس کے ابتدائی ڈھانچے میں کل پچاس طلباشامل تھے ۔ملا عمر کا نظریہ یہ تھا کہ جب افغانستان سے کمیونسٹ حکومت کا خاتمہ ہوگیا تو نئی حکومت اسلامی قانون کے نفاذ کے لیے سنجیدہ کیوں نہیں ہے ۔ اسی نظریے کے تحت اس نے اپنے حامیوں کے ساتھ مل کر نئی افغان حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کردی ۔ملا عمر افغان حکومت کے ساتھ ان تمام تنظیموں ،جہادی جماعتوں ،اور الگ الگ گروپس کا بھی مخالف تھا جو اسلامی نظریۂ حکومت پر عمل پیرا نہیں تھے ۔بہت مختصر مدت میں ملا عمر کے ساتھ ہزاروں طلبا جڑ گئے اور تحریک طالبان وجود میں آگئی ۔اس کے بعد امریکہ نے اپنا منافقانہ کردار ادا کرنا شروع کردیا اور ملّا عمر کو اسلحے کی فراہمی سے لیکر ہر طرح کا تعاون پیش کیا ۔امریکہ نے روس دشمنی میں ملا عمر کو سرمایے کی فراہمی سے لیکر جدید ترین ہتھیار فراہم کیے ۔یہاں تک کہ اسلامی نصاب کے نام پر اپنا تیار کردہ نصاب بھی انہیں دیا جس میں لوگوں کے قتل عام کو جہاد سے تعبیر کیا گیا تھا ۔اس نصاب نے افغانی بچوں کے دل و دماغ میں جہاد کے عجیب و غریب تصور کو جنم دیا اور اوائل عمر سے ہی انہیں خارجی طاقتوں کے خلاف متحد ہونے کا سبق ملنے لگا ۔طالبان نے منظم فوج تیار کرکے کابل کی طرف پیش قدمی شروع کی لیکن احمد شاہ مسعود کی فوجوں نے انہیں راستے میں ہی پسپا کردیا ۔اس پسپائی کی کھسیاہٹ مٹانے کے لیے طالبان نے کابل پر بمبار ی کردی جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ انسان مارے گئے ۔یہی وہ پہلا قدم تھا جس نے افغانوں کو طالبان سے بدظن کردیا اورطالبان کے خلاف عوام متحد ہونے لگے ۔یہی وہ زمانہ تھاکہ جب پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی بھی طالبان کے ساتھ متحد ہوگئی ۔ملا عمر زمانۂ طالب علمی سے ہی آئی ایس آئی کے رابطے میں تھا ۔مسلسل مسلح جدوجہد سے گھبراکر احمد شاہ مسعود روپوش ہوگیا اور طالبان نے افغانستان کے اقتدار پر قبضے کا اعلان کردیا ۔1996 سے لیکر 2001 تک طالبان نے فقہ حنفی کے مطابق حکومت چلائی اور دنیا نے بہت جلد ان کا مکروہ اور انسان دشمن چہرہ دیکھ لیا ۔طالبان کی دہشت گردی ،انسانیت سوزی اور جرائم کی بنیاد پر پوری دنیا اسلام سے بدظن ہوگئی اور یہ یقین کرلیا کہ اسلامی حکومت کا مطلب طالبانی نظام کا قیام ہے ۔جبکہ طالبانی نظام خود اسلامی نظریے کے خلاف تھا ۔9 ستمبر 2001 کو احمد شاہ مسعود کو طالبان کے دہشت گردوں نے صحافیوں کے بھیس میں قتل کردیا ۔اس کے بعد طالبان کے زوال کے دن شروع ہوگئے ۔11 ستمبر کو امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا جس کا سارا الزام ملا عمر اور اسامہ بن لادن کے سر دھرا گیا ا اورامریکہ نے افغانستان پر ہوائی حملے شروع کردیے ۔امریکی حملوں کی تاب نہ لاکر طالبان نے پسپائی اختیار کی اور فرار کرکے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ لی ۔افغانستان پر قبضے کے بعد امریکہ نے اپنی پسند کی حکومت قائم کی جس میں افغان عوام کی رائے کو قطعی اہمیت نہیں دی گئی ۔اس کے بعد ایک مدت تک اشرف غنی افغانستان کے اقتدار کے مالک رہے ۔اشرف غنی کے زمانے میں ہی طالبان دوبارہ منظم ہوئے اور ان کی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔اشرف غنی کی کمزور سیاسی پالیسیوں کا طالبان نے بھر فائدہ اٹھایا اور حکومت کو مذاکرات پر مجبور کردیا ۔کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے اعلان کیاکہ عوام خوفزدہ نہ ہوں ،یہ طالبان پرانا طالبان نہیں ہے ۔اس طرح طالبان نے خود اپنے اسلاف کے نظریے کو باطل اور ان کی جدوجہد کو ناجائز قراردیدیا۔
سقوط کابل کے بعد دنیا نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے ۔ہندوستان جو افغانستان کا دیرینہ دوست رہاہے اس نے بھی افغانستان کی تازہ صورتحال پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ۔ ہندوستان نے دیگر ممالک کی سیاسی حکمت عملی سے الگ ہوکر افغانستان کے مسئلےپر لاتعلقی کا اظہار کیاہے ۔بالکل اسی طرح کہ جب ۴۰ برس پہلے افغانستان میں روسی فوجیں داخل ہوئی تھیں اور افغانستان کے عوام نے انہیں اپنی سرزمین سے نکالنے کے لیے مسلح جدوجہد شروع کی ،اس وقت بھی ہندوستان نے ان تمام مسائل سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا ۔جبکہ امریکہ جس نے طالبان کی بھرپور حمایت کی تھی ،اس مسلح جدوجہد کو جہاد کا نام دیا تھا ۔پھر ایک وقت وہ آیا کہ امریکہ طالبان کو ختم کرنے کا ارادہ لیکر افغانستان میں داخل ہوا ۔اسامہ بن لادن کی موت کے بعد اس کا یہ جوش بھی ٹھنڈا پڑگیا ۔لیکن طالبان ایک بار پھر منظم ہوئے اور انہوں نے اسی طرح امریکی فوجیوں کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کی ،جس طرح روسی فوجیوں کے خلاف جہاد شروع کیا تھا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ امریکی فوجیں طالبانی جہاد کے آگے بے بس نظر آنے لگیں اور پھر امریکہ نے افغانستان سے فوجی انخلاء کا اعلان کردیا ۔فوجی انخلاء کے اس فیصلے کے پس پردہ بہت سے عوامل کارفرما تھے ۔اس فیصلے کا بڑا سبب مشرق وسطیٰ میں امریکی سیاست کی ناکامی اور زبردست فوجی نقصان بھی تھا ۔جس کا نظارہ شام ،یمن ،عراق اور افغانستان میں دیکھا گیا ۔خاص طورپر جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد جس طرح امریکی طاقت کا بھرم پاش پاش ہوا ،اس نے علاقائی سیاست میں برقی تبدیلی رونما کی اور امریکہ اپنی فوجی پالیسیوں پر نظر ثانی کے لیے مجبور ہوا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ہندوستان کا رویہ افغانستان کی نئی حکومت کے تئیں کیا ہوگا ؟۔کیونکہ ہندوستان امریکہ اور اسرائیل کا بھی اچھا دوست ہے ۔ظاہر ہے ہمارا ملک اپنے دوستوں کے سیاسی فیصلوں کے خلاف نہیں جاسکتا لیکن ہمیں افغانستان کی دوستی کا بھی خیال رکھنا ہوگا،یہ ایک مشکل صورتحال ہے ۔
سقوط کابل کے بعد اب تک کسی بھی ملک نے علی ٰ الاعلان طالبان کو افغانستان کا حاکم تسلیم نہیں کیاہے ۔آیا دنیا کی یہی روش مستقبل میں بھی جاری رہے گی یا پھر وقت اور حالات کے پیش نظر دنیا طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلے گی ،یہ بڑا سوال ہے ۔افغانستان پر طالبان کے تسلط کے بعد مشرق وسطیٰ کے حالات میں بھی برقی تبدیلی رونما ہوگی ۔مسلم بلاک جو پہلے ہی انتشار اور اختلاف کا شکار ہے ،طالبان کو تسلیم کرنے کے مسئلے پر بھی اتفاق رائے ممکن نہیں ہوگا ۔دیکھنا یہ ہوگا کہ مسلم بلاک جو استعماری منصوبہ بندی کا غلام ہے ،کس طرح طالبان کو تسلیم کرنے سے باز رہتاہے ۔کیونکہ امریکہ اور اسرائیل جیسے ممالک اگر علی الاعلان طالبان کے اقتدار کو تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر دنیا کے پاس انہیں تسلیم نہ کرنے کا کیا جواز ہوگا؟۔طالبان استعماری طاقتوں کی پیداوار ہے ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اسے تسلیم نہ کرے ۔طالبان کے اقتدار کو تسلیم کرنے کے لیے استعمار کونسی دور کی کوڑی لائے گا ،یہ دیکھنا اہم ہوگا!