شارب ردولوی پر سہیل کا خصوصی نمبر۔ ہمارے عہد کا بہترین شاہکار


از۔ عارف نقوی، برلن

ہمارے وقت کے ایک بہترین نقاد اور روشن ستارے اوربے لوث انسان شارب ردولوی پر کلکتّے کے مشہور رسالے سہیل کا خاص ضخیم نمبرمیری نظر میں ہمارے وقت کے بہترین اور اہم شاہکاروں میں ہے ۔ جس کے لئے رسالے کے مینیجنگ اڈیٹر جمیل منظر صاحب دلی مبارکباد کے مستحق ہیں۔رسالہ سہیل نے نہ صرف شارب ردولوی کی شخصیت اور ادبی کارناموں کے مختلف پہلوئوں کواجاگر کیاہے، بلکہ اس نے اردو ادب کے تقریباً سبھی اصناف کے سمندروںکی گہرائیوں میں جاکر شارب کے ہاتھوں موتی ہمارے سامنے بکھیر دئے ہیں۔ ایک ایسا کام جو اب تک شاید ہی ہمارے دور کے کسی رسالے نے اتنی محنت اور خوبی سے کیا ہو۔

حسن مثنیٰ کا شارب سے ادبی مکالمہ اور احمد معراج کا ان سے انٹرویو ہی نہیں بلکہ لہو میں ڈوبی حفیظ نعمانی کی یادیں، شارب کی بہترین ادبی خدمات اور انسانی خوبیوں کا عارف نقوی کی زبانی ذکر، نستعلیقی شخصیت کا مجتبیٰ حسین کے قلم سے اعتراف، شارب خم خانہء علم و ادب فاروق ارگلی، ایک عہد ساز شخصیت کی حیثیت سے ان کی عظمت کا صغیر افراہیم کی زبانی بیان، شارب کی فکشن تنقید پر اسلم جمشید پوری کا مضمون ، ان کے تنقیدی سرو کار، اشتراکی تنقید، انتقادی مرتبہ، تنقیدی شناخت، تنقیدی نظریہ، تنقیدی نقطہء نظر، اور درجنوں لاتعداد پہلو جیسے مرثیے، فکشن وغیرہ پر ان کی تنقیدیں غرضیکہ ان گنت پہلوئوں سے جائزہ لئے ہوئے فن پاروں سے سجا یہ خاص نمبر ہمارے وقت کے بہترین خاص نمبروں میں شامل ہے۔ جسے خوبصورت گلدستہ بنانے میں پروفیسر محمد عقیل، وہاب اشرفی، رحیم اللہ حالی، ظہیر نور، مناظر عاشق ہر گامی، سراج اجملی، زیبا محمود، عمر غزالی ، احتشام حسین، حسن عباس، شاہد ساز، علی احمد فاطمی محمد ہارون وغیرہ بہت سے لوگوں کی تخلیقات نے نمایاں رول ادا کیا ہے۔

میں خود بھی شارب ردولوی کی خوبیوں اور ان کی عالمانہ صفات کا قائل ہوں اورانہیں اپنے وقت کا بہترین نقاد سمجھتا ہوں ، لیکن میری نظروں میں ان کی اہمیت ان ساری خصوصیتوں سے بلند ایک بہترین انسان کی ہے ۔ یہ میں اس لئے بھی کہہ سکتا ہوں کہ میں نے انہیں بہت قریب سے ۱۹۵۴ء سے دیکھا ہے۔ جب ہم دونوں لکھنئو یونیورسٹی کے طالبعلم تھے۔اور ادبی سرگرمیوں میں ساتھ رہتے تھے۔ ہماری دوستی ۶۸ برس سے قائم ہے۔ البتہ میںجرمنی آکر بہت سی چیزوں میں بٹ کر رہ گیا ہوں اور وہ مرد آہن کی طرح ایک نقاد کی حیثیت سے اردو ادب کے میدان میں ایک ہی راستے پر آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔اور آج ایک کامیاب ترقی پسند نقاد اور انسان کے آسمانِ ادب پر جگمگا رہے ہیں۔

ان کی بے شمار مطبوعات منظر عام پر آ چکی ہیں، انعامات و اعزازات کی ایک طویل فہرست ہے ہندوستان کے بہت سے اہم علمی اداروں کے رکن رہے ہیں اور ہیں۔ مصر، سیریا، لبنان، عراق، کویت، کنیڈا، امریکہ، انگلستان ، پاکستان اور دوبئی وغیرہ میں جا کر ادبی لکچر دے چکے ہیں اور اپنی بیٹی شعاع فاطمہ کے نام سے ایک رفاہی ٹرسٹ اور شعاع فاطمہ اسکول قائم کر کے بہت سے غریب بچوں کو علم سے روشناس کرا رہے ہیں۔ اور میری ہی ایک پرانی کلاس فیلو پروفیسر شمیم نکہت (مرحومہ)کے شوہر ہیں، جنھیں شاعری کا شوق تو کبھی نہیں ہوا مگر کہانیاںضرور لکھتی تھیں، خصوصاً ان کے ’’مٹر پلائو‘‘ کی خوشبو آج تک باقی ہے۔ بعد میں دلی یونیورسٹی میں اردو کی پروفیسر بننے کے بعد کہانیاںلکھنا چھوڑ کر سار وقت درس و تدریس پر صرف کر نے لگی تھیںاور پھرشعاع فاطمہ اسکول کے بچوں پر وقت صرف کرتی تھیں اور شارب کے ساتھ ایک جان دو قالب تھیں۔

سہیل کے اس خاص نمبر میں جہاں اردو ادب کے ماہروں اور استادوں نے شارب ردولوی کی ادبی خدمات کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیا ہے وہیں مجھے شارب کی یہ بات سب سے زیادہ پسند ہے کہ ان کے نظریات اور تحریروں میں صفاائی اور پختگی ہے۔ اور وہ ایک اک لفظ کا سوچ سمجھ کر ایمانداری سے استعمال کرتے ہیں۔

آج تنقید نگاری کا معیار بعض لوگوں کی نظر میں بس اتنا ہی رہ گیا ہے کہ ’’ من تورا حاجی بگویم۔۔تو مرا حاجی بگو۔‘‘ دن رات نئی نئی کتابیں شائع ہوتی ہیں اور نقاد بیچارے کو تعریف میں قلمطرازی کرنا پڑتی ہے، چاہے اس نے کتاب کا بخوبی مطالعہ کیا ہو یا نہیں۔ اور پھر وہ بے چارہ اپنے ضمیر پر جبر کر کے دوسرے کی د ل جوئی کے لئے محنت کرتا ہے، یہ سوچ کر کہ کتاب میں صرف اسی کا مضمون ہوگا۔ مگر جب وہ کتاب منظر عام پر آتی ہے ، تو اس میںمصنف کی عبارتوں سے زیادہ مداحوں کی قلم طرازیاں ہوتی ہیں اور اس کے مضمون سے زیادہ صرف مداحی کرنے والوں کے مضامین کو نمائش حاصل ہوتی ہے اور وہ بے چارہ تنقید نگار جو ایک مستند تنقید نگار ہے اپنا سر پیٹ لیتا ہے۔ نقادوں کی ایک دوسری قسم ایسی بھی ہوتی ہے جو ایمانداری کے ساتھ مضامین میں صرف خوبیاں دیکھتے ہیں یا صرف عیب اور ہر چیز کو محض اپنے اونچے معیار پرپر کھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ساتھ ہی مصنف کی تحریروں کا ہر پہلو سے جائزہ لینے اور ان پر رائے ظاہر کرنے کے بجائے تنقید نگاری کے بارے میں انھوں نے اب تک جو پڑھا اور سیکھا ہے اس کا بکھان شروع کر دیتے ہیں۔ ایک دوسری قسم ایسے نقادوں کی بھی ہے جن کے اپنے پختہ فلسفیانہ، نظریاتی، سیاسی اور اخلاقی معیار ہیں اور اگر مصنف کی تحریں ان کی کسوٹی کے مطابق ہوتی ہیں تو اس کی تعریف میں پل باندھ دیتے ہیں، ورنہ اس کی دھجیاں اڑاکر رکھ دیتے ہیں۔یہ بات میں اس لئے آزادی سے کہہ سکتا ہوں، کیونکہ میں پیشہ ور نقاد نہیں ہوں۔ میں تو صرف اپنے مشاہدات اور تاثرات کا اظہار کر سکتا ہوں۔اللہ تعلی نے مجھے اصلی نقاد ہونے سے بچالیا ہے۔

لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ بعض ایسے نقاد بھی ہیں،جو ان سب کمزوریوں سے بلند ہو کر ایمانداری سے مضمون کی تہہ میں پہنچ کر، مصنف کی تحریر، اس کے خیالات، جذبات، ماحول ، تاریخی پس منظر ، فنی پہلوئوں، اور افادیت کی گہرائیوں میں جا کر اور ہر پہلو سے تحریر کا جائزہ لے کر تبصرہ کرتے ہیں۔تاکہ ادبی معیار نہ گرنے پائے۔ ایسے ہی بلند پایہ نقادوں میں سے ایک پروفیسر ڈاکٹر شارب ردولوی ہیں۔ جو پروفیسر ڈاکٹر احتشام حسین جیسے بڑے نقاد کے شاگرد رہ چکے ہیں او ر آج تنقید نگاری میں اپنا ایک الگ بلند مقام بنائے ہوئے ہیں۔

شارب کی تخلیقات پر کہنے کے لئے تو بہت ہے ، لیکن اس مقام پر ان کی ایک تحقیق ملاحظہ کیجئے جو پوری قوم کے لئے ایک بہت بڑی دین ہے۔ ( افادیت کے اعتبار سے) وہ ہے ان کا مضمون ’جنگ آزادی کے غیر معروف شعرا‘۔ یہ مضمون آج کے حالات میں، جبکہ نفرت و وحشت کے بادل ہر طرف منڈلا رہے ہیں اور اردو زبان و ادب کی اہمیت اور ملک کی آزادی، خوشحالی ، سا لمیت اور قومی اتحاد کے لئے اردو شاعروں اور مصنفوں کی خدمات اور قربانیوں کو نظر انداز ہی نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ جھٹلایا جا رہا ہے، لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے ایک بڑی کاوش ہے۔اور ثابت کر دیتا ہے کہ آزادی کی تحریک میں اردو ادب کسی سے پیچھے نہیں تھا۔مثلاً یہ اردو شاعر ہی تھے جنھوں نے کہا تھا:

’’سر فروشی کی تمنا پھر ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوِ قاتل میں ہے (بسملؔ)

شارب لکھتے ہیں:
’’ یہ آوازیں تحریک آزادی کے ساتھ تیز تر ہوتی گئیں اور جہاں صرف ماتم اور تباہی کا ذکر تھا وہاں انقلاب کی تمنائیں
کروٹیں لینے لگیں۔ اردو شعرا نے اپنی شاعری کو کارزار آزادی کا ترجمان بنا دیا اور ایک ایسی حکومت مخالف یا انگریز مخالف فضا پیدا کر دی
جو کہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں معاون ہوئی ۔ اردو شاعری نے تحریک آزادی کو جوش اور سرفروشی کی تمنا سے بھر دیا۔ ان میں
کتنے شعرا ایسے ہیں جنھیں بے خطا موت کی سزا ملی، کتنے ایسے ہیں جنھیں قید اور عبور دریائے شور کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں لیکن
کسی وقت ان کے جذبہء حب الوطنی، آزادی کی تمنّا اور ملک کو خوش حال دیکھنے کی خواہش میں کمی نہیں آئی۔‘‘ شارب کہتے ہیں:

’’ اس شاعری کی تاریخی اہمیت ہے اور تاریخ صرف قصّے اور واقعات کا بیان نہیں ہے۔ اس کے اندر ایک عہد سانس لیتا ہے۔
اس میں اس عہد اور وقت پر اثر انداز ہونے والے کردار ہوتے ہیں اور وہ جنون ہوتا ہے جس کے آگے زندگی بھی ہیچ نظر آنے لگتی ہے۔ اور یہ تاریخ ادب کے اوراق میں سانس لیتی ہے۔ اس لئے اگر اس عہد کے شعرا کو دیکھا جائے تو ان کے کلام میں قدم قدم پر اس تاریخ کے نقوش نظر آئیں گے۔ یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس تاریخ کو رقم کرنے میں اردو شعرا پیش پیش رہے ہیں۔ انھوں نے صرف قلم سے نہیں میدان میں آکر دوسروں کے شانہ بشانہ اس جنگ میں حصّہ لیا ہے۔‘‘
اس سلسلے میں شارب نے لاتعداد اردو شعرا اور ان کے حب الوطنی، آزادی اور قومی اتحاد کی تڑپ اور انقلابی جذبات
سے بھر پور کلام کی مثالیں دے کر اردو ادب کے ہراول رول کو واضح کردیا ہے۔ یہ مثالیں جو اردو زبان و ادب کی اہمیت کو نظر انداز
کرنے والوں کی آنکھیں کھول دیتی ہیں۔ مثلا نوبہار صابر ؔ کا یہ شعر جس کا حوالہ شارب نے دیا ہے:

پلا قاتل کہ ہم جامِ شہادت کو ترستے ہیں اسی مے کو پیا کرتے ہیں بادہ خوارِ آزادی
ذرا ٹہرو مجھے پھانسی کا پھندا چوم لینے دو یہی تو ہے شہیدوں کے گلے کا ہارِ آزادی
(نوبہار صابرؔ ٹوہانوی)

شارب لکھتے ہیں:
’’ جس قدر انگریزوں کے مظالم بڑھ رہے تھے اسی قدر مجاہدینِ آزادی میں جذبہء جانثاری زور پکڑتا جا رہا تھا۔

آزادی کی ان نظموں نے ایثار و قربانی کے جذبہ کو اور بڑھایا۔ چونکہ یہ نظمیں اور غزلیں عوامی ترانے بن گئے تھے اور ہر جگہ گائے جاتے
تھے ۔ ان نظموں نے سب سے بڑا کام یہی کیا کہ لوگوں میں غیرتِ قومی کو بیدار کیا اور انھیں مذہب، ذات پات ،علاقہ، عالم و جاہل، کسان و مزدور، سارے فرق سے بلند کر کے ایک جگہ جمع کردیا۔ اس طرح اردو شعرا نے تمنّاے آزادی کا ایسا مضبوط قلعہ تعمیر کردیا جسے انگریزوں کے بڑے سے بڑے مظالم بھی نہیں توڑ سکے اور جوشِ آزادی عوام کی آواز بن کر پھیلتا ہی گیا۔

ان شعراسے کوئی واقف نہیں نہ ہمارے تذکروں اور کتابوں میں چند کو چھوڑ کر کسی کا ذکر ملتا ہے لیکن ان کے الفاظ آج بھی آزادی کی دستاویز پر درج ہیں۔‘‘ مثلاً کنور ہری سنگھ جری ؔ کے یہ اشعار:

اٹھو اے نوجوانوں جوشِ رحمت کی گھٹا ہو کر
جگا دو غافلانِ ہند کو بانگِ درا ہو کر
تمھاری منتظر ہے شوکت و توقیرِ مستقبل

امر ہو جائو آزادیء بھارت پر فدا ہو کر
کوئی بھی حد ہے آخر جور و استبداد کی صاحب
کوئی کب تک رہے خاموش مجبورِ جفا ہوکر
اگر احساس ہے کچھ تم کو زندانِ غلامی کا
تو زنجیرِ غلامی توڑ دو نکلو رہا ہوکر
اور مرزا دبنگ کے یہ اشعار جن کا حوالہ شارب نے دیا ہے:

اشہبِ فکر انگیز تیز گام ہے آج سیفِ مضمون بے نیام ہے آج
انقلاب آ رہا ہے بھارت میں دعوتِ انقلاب عام ہے آج
صفِ ماتم بچھی ہے مغرب میں جشنِ مشرق کا اہتمام ہے آج
(مرزا دبنگ)

آج کے اس دور میں جب کہ ساری دنیا ، خصوصاً بر صغیر میں تنگ نظری، فرقہ واریت، دہشت پسندی،
نفرت و وحشت، رجعت پرستی کی قوتیں سر اٹھا رہی ہیں اور قوموں کو پستی کے دلدل میں پھینک دینا چاہتی ہیں اردو شعرا اور
ان کے فہم و ادراک اور ترقی پسندانہ کلام کی ضرورت اور اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شارب ردولوی نے اپنے اس تحقیقی کام سے وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت کو پورا کیا ہے۔ جس کے لئے وہ قابلِ مبارکباد ہیں۔ کاش وہ اس سلسلے میں اور زیادہ تحقیقی کام کریں اور ’تحریک آزادی کے غیر معروف اردو شعرا پر ایک دستا ویزی فلم اور ڈرامہ تیا ر کر کے قوم کے سامنے پیش کر سکیں، جو ان کی آنکھیں کھول سکے جو اب تک اپنی تاریخ اور ادب کے ان قیمتی جواہر پاروں سے ناواقف ہیں۔

Arif Naqvi   

Rudolf-Seiffert-Str. 58, 10369 Berlin (Germany),
Phone: 0049-30-9725036