جمعیۃعلماء ہند کی ملی، سماجی اورتعلیمی خدمات۔ایک سرسری جائزہ
(ممبئی میں منعقدہونے والے جمعیۃعلماء ہند کے اجلاس عام کے تناظرمیں)
اے۔آزاد قاسمی
آج کے ناموافق اورصبرآزماں دورمیں اگریہ کہاجائے توبے جانہ ہوگاکہ مسلمانان ہند کے لئے ملک عزیزمیں جمعیۃعلماء ہند کا وجود اس برگدکے تناور درخت کا سا ہے جو تپتی ہوئی دھوپ میں بلالحاظ مذہب وملت سب کو سایہ فراہم کرتاہے۔ کیونکہ ہمیں آج یہ بھی معلوم نہیں کہ ملک عزیز کی تعمیروترقی میں ہمارے اکابرین اورہمارے بزرگوں کی کیسی کیسی قربانیاں رہی ہیں، ملی تشخص کی آبیاری میں ہمارے ان بزرگوں نے کتنی مشقتیں برداشت کی ہیں، اورکتنی راتیں قادرالمطلق کے حضورسجدہ ریزہوکر ملک عزیزمیں ہمارے ایمان ویقین کی سلامتی کے لئے دعائیں کرنے میں جاگ کرگزاری ہیں،یہ ہمارے انہیں بزرگوں اورعلماء کی قربانیوں کا ثمرہ ہے کہ ملک میں مسجدیں بھی نظرآرہی ہیں اورمدارس بھی،آزادی کے بعد ہمیں جو سیکولرآئین ملا وہ بھی ہمارے انہی بزرگوں کی کوششوں اورجدوجہدکانتیجہ ہے۔ یہ آئین نہ صرف ملک کے ہرشہری کو مذہبی آزادی دیتاہے بلکہ ہماری زندگیوں کے تحفظ کی ضمانت بھی فراہم کرتاہے۔ہر چند کہ فرقہ پرست طاقتیں ملک کے سیکولر آئین کو کمزورکرنے کی طرح طرح کی سازشوں میں مسلسل مصروف ہیں مگروہ ایسا کرپائیں گی اس کا امکان نہ ہونے کے برابرہے اس لئے کہ ملک کی اکثریت امن پسند ہے اوروہ ان سازشوں کے خلاف ہے۔
تاریخ نگاری میں جس طرح کی لاپروائی برتی گئی وہ اپنی جگہ، لیکن ہماری اپنی بے توجہی اوربے اعتنائی کانتیجہ یہ برآمدہورہاہے کہ ہماری نئی نسل خوداپنی تاریخ سے کوسوں دورہوگئی ہے،اب تو حالات اس قدردھماکہ خیزہوگئے ہیں کہ دارالحکومت دہلی کی پرانی آبادی میں بسنے والوں کو جمعیۃعلماء ہند اوراس کے اکابرین کے نام تک بھی نہیں معلوم ہیں،ابھی عیدکے موقع پرآئی ٹی او چوراہے پر واقع مسجدجھیل پیاؤمیں چندنوجوانوں سے بعدنمازمغرب ملنے کااتفاق ہواجن کے معصومانہ سوالات سے یہ معلوم ہورہاتھا کہ وہ جمعیۃعلماء ہند جیسی تاریخی وملی تنظیم سے بالکل نابلد ہیں،وہ مختلف زاویہ سے اپنی حیرت کااظہارکررہے تھے کہ میں توجمعیۃکے آفس میں پہلی بارآیاہوں جبکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایک دورتھاجب قدیم دہلی جسے شاہجہان آبادکے نام سے بھی کبھی جانا جاتاتھا، اس کے رؤسا،و معززین شام ڈھلے جمعیۃعلماء ہند کے مرکزی دفترکی سیڑھیوں پرآدھمکتے تھے اورگھنٹوں جماعت کی ترویج واشاعت اورکارکردگی پرغوروفکرکرتے رہتے تھے، لیکن صدافسوس کہ اب ایساکچھ نہیں ہے،اس لئے موجودہ برقی ترسیلات یعنی مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارموں سے استفادہ کرتے ہوئے اس قدیم جماعت کی تاریخ کے ایک ایک پہلوکواجاگرکرنے کی سعی کی جانی چاہئے اورمختلف زبانوں میں اس کی تشہیری مہم کومہمیزبھی دیا جاناچاہئے۔کیونکہ اکیسویں صدی ہماری آنے والی نئی نسلوں کی ہے اورضروری ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے روشن کارناموں کی تاریخ سے بخوبی واقف ہوں۔
ملک کی آزادی اوراس کے بعد قوم وملت کی تعمیر اورملت کی فلاح واصلاح کے تعلق سے جمعیۃعلماء ہند نے جو تاریخی کرداراداکیا ہے وہ سب تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں، جمعیۃعلماء ہند کی موجودہ قیادت نے امیرالہندمولانا ارشدمدنی کی صدارت میں ایک بارپھر اپنے مجلس منتظمہ کااجلاس عام ملک عزیزکی اقتصادی راجدھانی ممبئی میں منعقدکرنے کافیصلہ کیا ہے، جوایک خوش آئندقدم ہے اور جمعیۃعلماء ہند کی مؤقرمجلس عاملہ کے اراکین شکریہ کے مستحق ہیں، موجودہ حالات میں اجلاس کے لئے جاری ایجنڈے کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ جمعیۃعلماء ہند نے ہر اس سلکتے ہوئے مسائل کو اپنے ایجنڈامیں شامل کیا ہے، جس پر موجودہ وقت میں رہبران قوم وملت کو سنجیدگی سے غوروخوض کرنے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے اوراگر یہ کام سرخیل آزادیئ ہند کے متوالوں اورملت کی مؤقرفعال ومتحرک جماعت ’جمعیۃعلماء ہند‘ کے بینرتلے ہورہا ہے توامیدکی جانی چاہئے کہ انشاء اللہ اس کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے اوراجلاس کے اختتام پر ضرور کوئی جامع ومعقول اعلامیہ بھی ملت کے سامنے آئے گا۔
جمعیۃعلماء ہند کیا ہے؟ اس کے اغراض ومقاصد کیا ہیں؟، اس تعلق سے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، موجودہ صورتحال میں جمعیۃعلماء ہند کی یہ کوشش رہی ہے کہ کس طرح ملک میں امن وامان کی فضاء قائم کی جائے اور ملک کی سب سے بڑی قوموں یعنی ہندوومسلمان کے درمیان ایک بارپھر صدیوں پرانی روایت بھائی چارہ،آپسی پیارومحبت کی فضاء قائم کی جائے۔کیونکہ ادھرچند سالوں سے فرقہ پرست لوگوں کی سرگرمیوں اورسازشوں کی وجہ سے دیکھا یہ جارہاہے کہ ان دونوں قوموں میں کہیں نہ کہیں ایک دراڑسی پڑگئی ہے جسے فی الفورپاٹنے کی ضرورت ہے، اگر ہمارے درمیان پیارومحبت کی فضاء قائم رہے گی تویقینا ہماراملک ایک بارپھر جنت نشاں بن سکتاہے، جمعیۃعلماء ہند کی قیادت بہت پہلے ان چیزوں کو محسوس کرچکی ہے اوراس کھائی کوپاٹنے کے لئے سالوں سے شہر بہ شہر اورگاؤں درگاؤں ’قومی یکجہتی کانفرنس‘ کے نام سے چھوٹے بڑے اجلاس منعقد کرچکی ہے، جس میں مختلف قوموں کے دھرم گرووں اورمختلف مسلک ومشرب کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پرجمع کرکے ملک کے تئیں اپنی تشویش کااظہاربھی کرتی رہی ہے، ساتھ ہی عوام الناس کو یہ پیغام دینے کی پوری کوشش کی ہے کہ اگر اس خلیج کوپاٹنے کی وقت رہتے تدبیر نہ کی گئی تویقینا نقصان ہم سب کا ہے،جس سے برادران وطن کی اکثریت نے بھی اتفاق کیا ہے جو ایک خوش کن پہلوہے۔جمعیۃعلماء ہند ملک میں جہاں جمہوریت کی بقاء اوراستحکام کے لئے ہمیشہ کوشاں رہی ہے وہیں ملت کی موجودہ زبوں حالی کی طرف سے بھی ایک پل کے لئے بھی وہ بے پروانہیں رہی ہے، اس نے ہرموقع پر ملت کے بہی خواہوں کو بدلے ہوئے حالات سے نبردآزما ہونے کے لئے مثبت پیرایہ میں حوصلہ دیا ہے اورخود آگے بڑھ کرصاحب ثروت اورغیورمسلمانوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی بھرپورکوشش کی ہے کہ وہ اپنے علاقوں میں ملت کے نوجوانوں اوربہن بیٹیوں کے لئے علیحدہ اسکول وکالج کی بنیادڈالیں تاکہ ہمارامعاشرہ بے دینی، بے راہ روی اوردوسرے حیاسوز جرائم سے پاک وصاف ہوسکے، اس کے لئے جمعیۃعلماء ہند نے اپنی تمام یونٹوں کو ایک سرکلرجاری کرکے تعمیری پروگرام کے اہم شعبہ ”اصلاح معاشرہ‘ کے تحت پروگرام ترتیب دینے اوراس کی مفصل رپورٹ مرکزی دفترجمعیۃعلماء ہند کو ارسال کرنے کا پابند کیا ہے، تاکہ اس کی روشنی میں آگے کے لئے لائحہ عمل ترتیب دیا جاسکے۔ جمعیۃعلماء ہند کا جدیدتعلیم سے منسلک بچوں کے لئے عالمی وبا’کرونا وائرس‘ کے بعد تعلیمی سال 2022-2023 کے لئے مختص بجٹ میں خاطرخواہ اضافہ بھی ایک اہم اورتاریخی فیصلہ ہے، اس سال جمعیۃعلماء ہند نے پورے ملک میں ٹیکنیکل، اورعصری تعلیم سے منسلک تقریبا 12 سوسے زیادہ بچوں کو دوکروڑروپے بطوراسکالرشپ تقسیم کئے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ اس تعداد میں ایک معتدبہ تعداد ہمارے برادران وطن کے بچوں اوربچیوں کی بھی ہے جس کی ہرسطح پر پزیرائی ہونی چاہئے، اسی طرح جمعیۃعلماء ہند نے دہشت گردی کے الزام میں ماخوذمحروسین مسلم نوجوانوں کے خاندانوں کی مستقل خبرگیری کررہی ہے اور ان کے گزربسر کے لئے مستقل وظائف دیئے جارہے ہیں اس طرح کی بے لوث خدمت خلق جمعیۃعلماء ہند اوردیگر ملی جماعت کے مابین ایک خط امیتاز ہے۔
اس سچائی کا اعتراف کرنے میں بھی ہمیں تردودنہیں ہونا چاہئے کہ جمعیۃعلماء ہند کے قیام کو سوسال سے زیادہ عرصہ مکمل ہوچکے ہیں اوریہ بدستور اپنے موجودہ صدر مولاناسید ارشدمدنی کی قیادت وسیادت میں بڑی ہی خوش اسلوبی سے اپنے فرائض منصبی کو پوراکررہی ہے،اگرہم بعہدصدارت مولانا مدنی کے دورمیں جمعیۃعلماء ہند کی کارکردگی پر نظرڈالتے ہیں توہم اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبورہوں گے کہ انہوں نے اپنی تماترذمہ داریوں کے باوجودبڑی ہی جواں مردی اور دوراندیشی سے ملت کو درپیش مسائل کاسامناکیا ہے، انہوں نے اپنی صدارت کے ابتدائی دور میں جبکہ آپ کو ناموافق حالات کا سامنا تھا سب سے پہلے ام المدارس کے بینرتلے ’دہشت گردی مخالف کانفرنس‘کا کامیاب انعقادکرکے ملک کے تمام ہی سیکولرمزاج لوگوں کو یہ واضح پیغام دیا کہ اسلام اورمسلمان کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے اورنہ ہی اسلام اس کی اجازت دیتاہے، اس کے فورابعدآپ نے جمعیۃعلماء ہند کے بینرتلے تاریخی جامع مسجد کے اردوپارک میں دہشت گردی مخالف کانفرنس کا کامیاب کاانعقاد کیا اورملک کے تمام ہی باشندوں کے ذہن سے اس غلط فہمی کے ازالہ کی پوری کوشش کی کہ ایک سچامسلمان کبھی بھی دہشت گردنہیں ہوسکتا،اس موقع پر مولانا مدنی نے ایک وقیع خطبہ صدارت پیش فرمایاتھا جس کا ہر چہارجانب سے خیرمقدم کیا گیا، انہوں نے اپنے خطبہ میں فرمایا تھاکہ اللہ نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا ہے بھلاایسے مذہب کے پیروکارکیوں کر دہشت گردیادہشت گردی کے کسی معاملہ میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ ایسے دورمیں کہ جب ملک کی کوئی بھی تنظیم اورجماعت ملت کو درپیش اس اہم معاملہ پر لب کشائی کرنے سے ڈرتی تھی تب جمعیۃعلماء ہند کی قیادت نے جمعیۃعلماء مہاشٹراکی بزرگ شخصیت گلزاراحمد اعظمی کی سربراہی میں ’جمعیۃلیگل سیل‘ کے قیام کو منظوری دی، جمعیۃعلماء ہند لیگل سیل نے اس قلیل مدت میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں اسے سنہری حروف میں لکھا جانا چاہئے،، اپنے قیام سے لیکر اب تک’جمعیۃلیگل سیل‘ نے پورے ملک میں بے قصورومجبورلوگوں کی دادرسی اورقانونی امدادفراہم کرنے میں کوئی
کسرنہیں اٹھارکھی ہے، محتاط اندازے کے مطابق نچلی عدالت سے لیکر عدالت عظمیٰ تک ملک کے معیاری وکلاء کی خدمات حاصل کرکے سیکڑوں بے قصورمحروسین کو باعزت بری کراچکا ہے، ابھی ٹرائل کورٹ سے لیکر عدالت عظمیٰ تک سیکٹروں مقدمات زیرسماعت ہیں، بقول سکریٹری قانونی امدادکمیٹی 288 ماخوذمسلم نوجوانوں کوباعزت رہائی مل چکی ہے جس میں عمرقیدسے لیکر پھانسی تک کی سزاپاچکے محروسین تھے، دیگرماخوذین کے تعلق سے بھی کوشش برابر جاری ہے ان شاء اللہ ہمیں اس میں بھی کامیابی ملے گی۔ جیل میں بند محروسین کے تعلق سے ان کا کہنا ہے کہ”اس طرح کے مقدمات کی پیروی کرنا موجودہ حالات میں آسان کام نہیں ہے مگرملک کے سیکولرمزاج برادران وطن اورلوگوں کاجماعت کی کازپربھرپور اعتماد ہمیں حوصلہ دیتا ہے“۔اس لیگل سیل کو صدرجمعیۃعلماء ہند کی نہ صرف رہنمائی حاصل ہے بلکہ وقت وقت پر دیئے جانے والے ان کے گراں قدرمشورے اورہدایتیں بے گناہوں کو انصاف دلانے میں بہت کام آرہی ہیں۔
جمعیۃعلماء ہند اکابرین امت کی وہ تاریخ سازجماعت ہے جس نے ہردورمیں ملت کی قیادت کافریضہ انجام دیاہے،تاحال جمعیۃ علماء ہند کی جدوجہد مختلف سطحوں اور متعدد میدانوں میں مسلسل جاری ہے۔ سیاسی، قانونی اور سماجی سطح پر ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی ہے۔ اُس نے عملی اقدام کے ذریعہ ایک طرف جہاں فرقہ پرست عناصر کے فسطائی جابرانہ کردار کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی ہے وہیں دوسری طرف مظلومین کی دادرسی، اعتمادبحالی اور بازآبادکاری پر اب تک کروڑوں روپے خرچ کئے ہیں جس کی ایک طویل فہرست ہے۔ فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کے تسلسل کے باعث آزادی کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے اکابر اور جماعت کے وسائل کا بیشتر حصہ ریلیف و بازآبادکاری پر صرف ہوا ہے۔”کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے مسلم کش فسادات پر احتجاج کرنا، مظلومین کی اشک شوئی کرنا جمعیۃ علماء ہند کا مقدر بن گیا ہے“۔جمعیۃعلماء ہند کے اکابرین کی جدوجہد محض تقریر و تحریر تک محدود نہیں رہی بلکہ جب بھی کسی جگہ سے فساد کی اطلاع ملی مرکزی دفتر نے صوبائی اور مرکزی ذمہ داروں کو صورتِ حال سے باخبر رکھا جس میں ابھی حال ہی میں ہونے والے مدھیہ پردیش کے کھرگون، تری پورہ اورابھی کچھ دن پہلے رام نومی کے موقع پر بہارشریف پٹنہ میں ہونے والے فسادات خاص طورپر قابل ذکرہیں جہاں جمعیۃعلماء ہند کی مرکزی قیادت نے اپنی ریاستی باڈی کو پہلے دن سے متحرک کردیا تاکہ متاثرین کی بروقت خبرگیری کی جائے۔ جمعیۃ علماء ہند نے ’1972ء کے سالانہ اجلاس میں فسادات پر ایک جامع قرارداد منظور کرکے حکومت سے مطالبہ کیا تھاکہ قومی یکجہتی کونسل کی سفارشات پر عمل کیا جائے اور مختلف النوع پولیس فورسیز میں مسلمانوں کو بھی بھرتی کیا جائے تاکہ پولیس جانبدارانہ عمل سے باز رہے‘۔ اصولی طور پر حکومت نے جمعیۃ علماء ہند کے مطالبات کو تسلیم کرلیاتھا خاص طور پر اس مطالبہ کو کہ فساد کے لئے مقامی انتظامیہ اور پولیس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا، لیکن عملی شکل میں ہر ریاست میں اس کا نفاذ نہیں ہوا۔ حکومت نے سریع الحرکت فساد شکن فورس قائم کی لیکن اس کے باوجود فسادات کا سلسلہ نہیں تھما۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیکولر جماعتوں نے فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے میں تساہلی اور پہلوتہی سے کام لیا۔ جمعیۃ علماء ہند نے فرقہ پرستی کے امڈتے ہوے سیلاب کو روکنے کے لئے ہمیشہ ہر مکتبِ فکر کے ہم خیال افراد کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے،اس ضمن میں صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے 30/نومبر2009 میں ”انسدادفرقہ وارانہ فسادات کانفرنس“ کا انعقادکرکے جمعیۃکے اس دیرینہ مطالبہ کااعادہ کیا کہ ملک میں رونماہونے والے فسادات کے لئے لوکل ایڈمنسٹریشن کو قانون کے دائرہ میں لایا جائے او فرقہ وارانہ تشددکی روک تھام کے لئے ایک جامع قانون سازی کامطالبہ بھی کیا تاکہ ملک میں آئے دن ہونے والے فسادپر قابوپایاجاسکے۔ اسی طرح 10/اپریل 2010کو شاستری پارک دہلی میں ”حصول انصاف کانفرنس“ کاانعقاد ہواجس میں سیکولرمزاج پارٹیوں کے صدورکو شرکت کی دعوت دی گئی، اس تاریخی اجلاس میں صدرجمعیۃعلماء ہند نے ایک بار پھرانسدادفرقہ وارنہ فسادات اوردیگر مطالبات کے ساتھ مسلمانوں کو ریزرویشن کے لئے ’سچرکمیٹی‘ اور’رنگاناتھن مشراکمیشن‘کی سفارشات کے نفاذ کے لئے ایک جامع خطبہ پیش فرمایاتھا، اس طرح کی بے لوث کاوشیں ہی جمعیۃعلماء ہند کوملک میں ممتازکرتی ہیں،مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی، اقتصادی اور سیاسی حالت کے بارے میں جمعیۃ علماء ہند کا موقف صاف ہے کہ وہ ملک میں باہمی رواداری اوریکجہتی کی پرانی روایت کو قائم رکھنے پرہمیشہ سے زوردیا ہے۔ ہم یہ بھی باور کرادیں کہ جمعیۃ علماء ہند ہی مسلمانان ہند کی وہ واحد تنظیم ہے جس نے سب سے پہلے مسلمانوں کو تعلیم، اورروزگارکے شعبوں میں ریزرویشن فراہم کرنے کامطالبہ کیا اورنہ صرف مطالبہ کیا بلکہ وہ اس کے لئے مختلف سطحوں پرمسلسل عملی جدوجہد بھی کرتی رہی ہے،مولانا مدنی اپنے ہر خطاب میں تعلیم پر خصوصی زوردیتے آئے ہیں کیونکہ ان کا یہ مانناہے کہ اس نئے دورمیں تعلیم ہی کامیابی کی کلید ہے اوریہ کہ ہم تعلیم کے ہتھیارسے ہی ہر طرح کے امتیاز،۔ناانصافی،نابرابری اورظلم کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور ایک ترقی یافتہ قوم بن کر دوسروں کو بھی اپنی پیروی کرنے پر مجبورکرسکتے ہیں۔