از۔عارف نقوی

    درد ہوتا ہے میرے پیر میں ٹیس اٹھتی ہے
    زندگی بھر کا مزا
    عیش و طرب
    غنچہ و گل کا جمال
    گلشنِ ہستی کا کمال
    بربط و چنگ کے شیریں سرگم
    طائرِ شوخ کے نغمات  و طلسمِ فطرت
    خوابِ خوش آیند و حسین
    درد ہوتا ہے تو سب خواب بکھر جاتے ہیں
     خاک میں مل جاتے ہیں
    ٹیس ہی ٹیس ہے اک عالم ِ لاچاری ہے 
    اور کانوں میں فقط ایک صدا آتی ہے
    طفلِ غازہ کی صدا
    اقصیٰ کی  نِدا
    میں بھی انسان ہوں، انسان ہوں، انسان ہوں میں
    دردکا مارا بشر
    ظلم کا مارا ہوں ، بے یار و مددگار ہوں میں
    جینے کا طلبگار ہوں میں
    میری امّاں، میرا بابا، میرا بھائی، بہنا
    چھوڑ کر دور بہت دور گئے ہیں مجھ سے
    میرے آنگن میں کٹے جسم ہیں 
     مردہ لاشیں
    اور اعصاب پہ بھوتوں کا ہے سایہ امروز
    میں بھی انسان ہوں، انسان ہوں، انسان ہوں میں
    میں ہوں غازہ کی صدا
    اقصیٰ کی نِدا
        ٭
                عارف نقوی، ۱۷؍ مئی ۲۰۲۱ء