اویسی کے وعدے اور ان کے حدود
[ شذرہ : ہندوستان میں مسلمانوں کی بات ہو تو چاہے ان کا عمل کتنا ہی مثبت کیوں نہ ہو دوسرے لوگوں کے لئے جن میں ہارڈ کور نظریہ رکھنے والے ہندتوا اور دلت نیز دوسری کمیونٹی کے افراد بھی شامل ہیں اس میں انھیں کیڑے ہی نظر آتے ہیں ۔ کانچا الییا شیفرڈ برہمن واد سماج کے نہ صرف مخالف رہے ہیں بلکہ اس کے خلاف انھو ں نے جم کر لکھا بھی ہے اور برہمن طرز فکر والا نظریہ جس میں شودروں اور دلتوں کو اچھوت سمجھا جاتا ہے کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے ۔ اس کی وجہ سے انھیں قید و بند کی صعوبت بھی جھیلنی پڑی ہے ۔ لیکن خود کو مظلوم گرداننے والے کانچا کے پاس مسلمانوں کا کیس آتا ہے تو ان کا قلم جانب دار ہو جاتا ہے ۔ آج کے انڈین ایکسپریس میں شائع ان کا مضمون “وعدے اور ان کے حدود” میں بھی انھوں نے وہی رویہ اپنایا ہے جس کو لیکر وہ ہندتوا وادیوں کو سب و شتم کرتے رہے ہیں ۔ میں نے اسی لئے اپنے اردو قارئین کی خاطر اس مضمون کا ترجمہ کر دیا ہے تاکہ وہ ایسے لوگوں کو پہچان سکیں ۔–محمد علم اللہ–]
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے رہنما اسدالدین اویسی مسلم کمیونٹی کے قومی رہنما بننے کی تیاری میں ہیں ۔ حیدرآباد کے علاوہ ، ان کا انتخابی میدان اب مہاراشٹر اور بہار تک پھیل گیا ہے ، جہاں اے آئی ایم آئی ایم نے اسمبلی اور میونسپل دونوں سیٹیں جیتنے میں کامیابی حاصل کی ہیں ۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ، اے آئی ایم آئی ایم نے حیدرآباد کے علاوہ ، مہاراشٹر میں بھی ایک نشست حاصل کی تھی ۔اے آئی ایم آئی ایم کی ترقی آر ایس ایس اور بی جے پی کی سیاست کے پس منظر میں ہے ، جو ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کو مستقل طور پر الگ تھلگ کر د ینے کا خواب دیکھتے ہیں ۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی مکمل آبادی کا 14.2 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔ بعض شہری علاقوں میں ، اگر مسلمان ایک بلاک کے طور پر ووٹ دیتے ہیں تو ، اے ایم آئی ایم اپنے بل بوتے پر کافی زیادہ سیٹیں حاصل کر سکتی ہے۔
اسد الدین کے والد صلاح الدین اویسی (1931-2008) بھی خود حیدرآبادانتخابی حلقے کی نمائندگی کرنے والے ایک رکنِ پارلیمان تھے ، مگر وہ ایک قومی شبیہہ رکھنے والے ماڈرن مسلم رہنما نہ تھا۔ اس کے بر عکس اسدالدین اویسی انگلستان کے تعلیم یافتہ ہیں ، ساتھ ہی انہوں نے ایک بیرسٹر کی حیثیت سے تربیت حاصل کی ہے ، جنھیں اس بات کا اچھی طرح ادراک ہے کہ ہندوستان میں مسلم بہبود کے لئے جمہوریت ایک ضروری سیاسی نظام ہے۔ انہوں نے 2012 میں یو پی اے سے علیحدگی اختیار کی ، جس نے ان کے قومی عزائم کو فروغ دیا۔ ان کے اس عمل نے ا نھیں ایک مسلم شناخت والی شخصیت کے طور پر پیش کردیا جس کا فائدہ اٹھاکر پر بی جے پی / آر ایس ایس نے ا ن پر مستقل حملہ کیا اور ا نھیں تنقید کا نشانہ بنایا۔
اے آئی ایم آئی ایم کی ترقی بی جے پی اور کانگریس دونوں کے لئے خطرہ کی گھنٹی ثابت ہوئی ہے ۔ مسلم حلقوں میں اویسی کے اپنے نمائندے کھڑے کرنے کی وجہ سے بی جے پی کوفائدہ جبکہ کانگریس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے ۔ اگر مسلمان کانگریس سے دور ہوگئے تو بی جے پی کے ہر ریاست میں جیتنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ کچھ علاقائی جماعتیں جیسے سماج وادی پارٹی اور آر جے ڈی بھی ہارنے کی دوڑ میں ہیں ۔ لہذا اویسی کا بظاہر مسلم لیڈر کے طور پر عروج اتنا ہی بی جے پی کی ضرورت ہے جتنا آل انڈیامجلس اتحاد المسلمین کی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے یہ ایک الگ مسئلہ بن سکتا ہے۔ چونکہ مسلم آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ شہری علاقوں میں رہائش پذیر ہے ، ایسے میں ان کی سیاسی تنظیمی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اور ایک مذہبی – نظریاتی قیادت سامنے آئے گی۔ بڑی حد تک مسلم عوام بھی سیکولر ازم سے ناخوش ہیں ، جس میں وہ اقلیتی اکثریتی بحث میں پھنس کر رہ جاتے ہیں اور جس کی وجہ سے ان کی اپنی مسلم شناخت گم ہو جاتی ہے۔
ایس سی / ایس ٹی / او بی سی اقلیتی اتحاد کا نعرہ بھی اب پرانا ہوتا جارہا ہے اور ممکن ہے کہ اس میں کوئی وزن نہ رہے۔ اگرچہ اویسی دلت مسلم اتحاد کی بات کرتے ہیں ، لیکن ان کے پاس شودروں یا او بی سی سے خطاب کرنے والی زبان نہیں ہے۔ آر ایس ایس-بی جے پی اتحاد [پوری شدت کے ساتھ اور ]عسکری انداز میں اویسی کی مخالفت کرکے تلنگانہ جیسی ریاست میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتی ہے۔ انہوں نے حیدرآباد شہر میں بنیادی طور پر او بی سی کو مسلمانوں کے خلاف متحرک کرکے اپنے لئے راستہ بنایا ہے ۔ جیسا کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں [ان کی حکمت عملے سے ] ظاہر ہوتا ہے اب وہ ایسی ہی سیاست دیہی تلنگانہ میں کریں گے ۔ چونکہ اے آئی آئی ایم کی ایک تاریخ ہے کہ وہ ایک آزاد نظام ریاست (جس کو انہوں نے 1940 کی دہائی میں قاسم رضوی کی رضا کار تحریک کے دوران جنوبی پاکستان قرار دیا گیا تھا) قائم کرنے کے حق میں تھے ، لہذا ہندوتوا افواج نے آسانی سے اس پرانے شہر کا نام پاکستان اور اویسی کو اس کا جناح قرار دے دیا۔
حیدرآباد کی طرح ، بہت سارے شہروں میں ، جن کی ایک اہم آبادی شودرا / او بی سی آبادی پر مشتمل ہے مسلمانوں کے ساتھ کوئی قریبی تعلقات نہیں ہیں۔ او بی سی گوشت کھانے والے ہیں ، لیکن بہت سے لوگ گائے کا گوشت نہیں کھاتے ۔ آر ایس ایس / بی جے پی نیٹ ورک ان اختلافات کو ہوا دیتی ہے اور مسلمانوں کے خلاف شودرا / او بی سی عوام کو منظم کرنا ان کے منصوبے میں شامل ہے ۔ اویسی کا ذات پات کے مسئلہ میں داخلہ حالیہ ہے اور ان کی فکر کے حامل افراد او بی سی کو ہندو ہی سمجھے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی مسلم رہنما اور دانشور نے ذات پات کے فالٹ لائن کا مناسب طور پر مطالعہ نہیں کیا ہے ۔ ان کی توجہ ہمیشہ ہندو مسلم تقسیم پر رہی ہے ۔ ذات پات کے تضادات کے بارے میں ان کی تفہیم البیرونی کے الہند تک ہی محدود ہے۔ لیکن ہندوستان میں ویدک تہذیب کے دنوں سے ہی ذات پات کے جبر کی ایک طویل تاریخ رہی ہے جو 11 ویں صدی میں مسلم حکمرانی کے آغاز سے بہت پرانی ہے۔آر ایس ایس-بی جے پی کی ہندو قوم پرستی نے سیکولرازم کے نظریہ کو چیلنج کیا ہے ، جس میں مسلم قائدین کا بھی ایک مقام تھا ۔ اویسی کی قیادت میں ، اے آئی ایم آئی ایم بھی مسلم قوم پرستی کی زبان استعمال کر تی ہے۔ چونکہ اویسی کے آباؤ اجداد نے حیدرآباد کو چھوڑ کر پاکستان جانے سے انکار کردیا تھا ، لہذا اے آئی ایم آئی ایم کے رہنما اپنے ہندوستانی مسلم قوم پرستی کو بی جے پی-آر ایس ایس کی مسلمانوں کو غیر ملکی یا پاکستانی قرار دینے کی کوشش کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسی لئے بھی ہندوستان بھر کے مسلمان اس کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں۔ مگر آر ایس ایس کا مسلمانوں کو مستقل دشمن بنا کر پیش کرنے کا طریقہ اور اویسی کی مسلمانوں کو انتخابات میں منظم کرنے کی کوششیں ، قومی انتشار اور آہستہ آہستہ تباہی کا باعث بن سکتی ہیں۔