اس بارفرقہ پرستوں کو دھچکاضرورلگاہے مگر انہوں نے ہارنہیں مانی ہے
جاویدقمر


بی جے پی کا اکثریت میں نہ آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس بار ملک کے عوام تبدیلی چاہتے تھے لیکن اب جب کہ بی جے پی دوسری پارٹیوں کے سہارے حکومت سازی کر چکی ہے تو وہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ اکثریت میں نہیں ہونے کے باوجود مرکز میں کچھ بھی نہیں بدلا وہی وزراء ، سرکاری اداروں کے سربراہان بھی وہی یہاں تک کہ پارلیمنٹ کا اسپیکر بھی نہیں بدلا۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ وزراء کے قلمدان بھی وہی ہیں جو ان کے پاس پہلے تھے ۔حکومت سازی سے قبل لوگ قیاس آرائیاں کر رہے تھے کہ چونکہ بی جے پی اکثریت سے دور ہے اس لیے جو نئی حکومت قائم ہوگی اس میں تبدیلی کی واضح جھلک دکھائی دے گی مگر افسوس نتیش کمار اور چندرا بابو نائڈو کی خود سپردگی سے ایسا کچھ نہیں ہوا۔ حالات یہ ہیں کہ تمام اہم وزارتیں بی جے پی کے ہی پاس ہیں۔ یہ تبدیلی ضرور دیکھنے کو مل رہی ہے کہ اب مودی سرکار کی جگہ این ڈی اے کی سرکار کہا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی نریند مودی کی قیادت میں این ڈی اے ہی کی سرکار تھی لیکن اس وقت چونکہ بی جے پی کو اپنے طور پر اکثریت حاصل تھی اس لیے این ڈی اے کی سرکار کی جگہ مودی سرکار کی ہی گردان کی جا رہی تھی ۔نتیش اور نائڈو کی موقع پرستی کی سیاست کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اب یہ جھوٹ مسلسل بولا جا رہا ہے کہ عوام نے ایک بار پھر نریندر مودی کو ملک کی قیادت کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے لیکن مینڈیٹ تو وہ ہوتا ہے کہ جب کسی ایک پارٹی کے حق میں ووٹ دے کر عوام اسے اقتدار کی باگ ڈور سونپ دیں۔ نتیش کمار اور نائڈو کی بزدلی کی سیاست آگے کیا رنگ لائے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ان دونوں کی خاموشی اور حمایت نے مودی اور ان کی ٹیم کے لوگوں کو سرکار چلانے کی ایک طرح سے آزادی دے دی ہے۔ حال ہی میں پارلیمنٹ کا جو سیشن ہوا اس میں ہر چند کہ وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کا لب و لہجہ قدرے بدلا ہوا تھا لیکن وزیراعظم نے جو تقریر کی اس سے یہ صاف اشارہ مل گیا کہ اس بار بھی ان کی حکمرانی کا انداز پہلے ہی جیسا ہوگا۔ حالاں کہ اس بار اپوزیشن مضبوط ہے اس لیے ان کی من مانیاں نہیں چل سکیں گی لیکن اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تعلق سے پچھلے دس برسوں کے دوران منصوبہ بند طریقے سے جو کچھ ہوتا آیا ہے اس میں کسی طرح کی مثبت تبدیلی کے آثار کم ہیں۔ الیکشن کے فورا بعد ملک بھر میں جگہ جگہ ہجومی تشدد کی ایک نئی لہر چل پڑی ہے ۔نفرت اور تشدد کو لے کر پارلیمنٹ میں راہل گاندھی سمیت بہت سے لیڈروں نے بیباکی سے آواز اٹھائی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم اپنی تقریر میں اس پر جواب دیتے لیکن انہوں نے اپنی پوری طاقت راہل گاندھی اور کانگریس کو کوسنے پر صرف کر دی۔ چنانچہ یہ بات بآسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ نفرت اور تشدد کو لے کر وزیراعظم قطعی سنجیدہ نہیں ہیں۔ نتیش کمار اور نائڈو کی پارٹی کے لوگ بھی اس پر خاموش ہیں۔ یہ خاموشی نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ اس سے فرقہ پرست طاقتوں کو حوصلہ بھی مل رہا ہے۔
ہماری جمہوری سیاست کا المیہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے مسائل پر کسی بھی پارٹی نے پارلیمنٹ کے اندریا پارلیمنٹ کے باہر کبھی کھل کر کچھ کہنے کا حوصلہ نہیں کیا ، آئین کے نام پر حلف تولیاگیا لیکن اقلتیوں کے تعلق سے آئین میں درج رہنماہدایات پر کبھی عمل نہیں ہوا، دوسری طرف کانگریس پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا مسلسل الزام لگتا رہاہے ، یہاں تک کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم نے کانگریس پر یہ مضحکہ خیزالزام بھی لگایا کہ کانگریس دلتوں اورپسماندہ طبقات کا ریزرویشن ختم کرکے مسلمانوں کو ریزرویشن دینا چاہتی ہے ،یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جو کانگریس سچرکمیٹی پر آئی رنگناتھ مشراکمیشن کی سفارشات پر عمل کرنے کا حوصلہ نہ کرسکی اس پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام لگادیاجائے ،اگرچہ اس طرح کا الزام لگانے والے اس سچائی سے بخوبی واقف ہیں کہ آزادی کے بعد اقتدارکے حصول کے نام پر مسلمانوں کو صرف سبزباغ ہی دکھائے جاتے رہے ، اس کے بعد بھی اگر اس طرح کی الزام تراشی کی جاتی ہے تواس کا صاف مطلب ہے کہ ایسا کرکے کچھ لوگ اکثریت کو گمراہ کرناچاہتے ہیں ،بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں نے عام طورپرہر الیکشن میں یہی کیاہے اوراس کا بھرپورسیاسی فائدہ بھی انہیں حاصل ہوا، لیکن اس بار تمام تر کوشش اورپروپیگنڈے کے باوجود ایسانہیں ہوا، بی جے پی اترپردیش میں بھی توقع کے مطابق کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی جہاں ایودھیامیں الیکشن سے قبل رام مندرکا افتتاح کرکے اس کی مسلسل پبلسٹی کرائی گئی اوروزیراعظم نے کئی باروہاں کا ہائی ٹیک دورہ بھی کیا اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ جو منافرت مسلمانوں کے خلاف لوگوں کے ذہنوں میں بھری گئی ہے وہ ختم ہوگئی الیکشن کے فورابعد ہجومی تشددکی نئی لہر اس کا ثبوت ہے ،کہ نفرت کم ضرورہوئی ہے ختم نہیں ہوئی مسلمانوں پر اب یہ الزام بھی لگ رہاہے کہ وہ ہمیشہ بی جے پی کو ہرانے کے لئے ہی ووٹ کرتے ہیں اس سوچ کے لوگوں کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جمہوری سیاست میں ہرشخص کو اس بات کی مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کے امیدوارکا انتخاب کرے اوراگرمسلمان اپنی پسند کے امیدوارکے حق میں ووٹ ڈال کر اس کاانتخاب کرتے ہیں تووہکوئی جرم نہیں کرتے ۔
درحقیقت ملک میں ایک طبقہ ایسے لوگوں کا پیداکردیاگیا ہے جو ہر معاملہ کو مذہب کی عینک سے دیکھتاہے ، انتہاتویہ ہے کہ مسلم دشمنی میں ٹی وی چینلوں کے مباحثہ میں بیٹھ کر بعض لوگ تاریخ کو بھی جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں ، ابھی حال ہی میں انتخابی نتائج اور پارلیمنٹ میں راہل گاندھی کی تقریر کے حوالہ سے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی کا ایک بیان اخبارات میں شائع ہواجس میں انہوں نے کہا تھا کہ ملک کے آئین اورجمہوریت کو بچانے اورنفرت کو ختم کرنے کے لئے اس بارمسلمانوں نے متحد ہوکر ووٹنگ کی اس پر ایک مشہورٹی وی چینل نے باقاعدہ مباحثہ کا انعقادکیا جس میں ایک شخص نے برملا کہا کہ یہ بیان اس دارالعلوم دیوبند سے وابستہ فردکا ہے جس نے پاکستان بنوایا ، حالانکہ ایک دنیااس حقیقت سے واقف ہے اور جنگ آزادی سے متعلق لکھی گئی تمام کتابوں میں یہ بات درج ہے کہ دارالعلوم دیوبنداورجمعیۃعلماء ہند کے علماء نے محمد علی جناح کے دوقومی نظریہ کویکسرمستردکردیا تھا اورانہوں نے ہندوستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ منصوبہ بند طریقہ سے ہورہاہے ، جس کا مقصدملک کے شہریوں کو مذہب اورذات پات کے نام پر تقسیم کرنا ، ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے خلاف جھوٹ پھیلانا اور لوگوں کے درمیان فاصلہ پیداکرنا ہے اس بارکے انتخابی نتائج سے یہ ثابت سامنے آگئی کہ عام لوگوں پر اس طرح کے گمراہ کن پروپیگنڈوں کازیادہ اثرنہیں ہوتالیکن ایک مخصوص طبقہ ہے جو اس طرح کی باتوں کوپھیلاکر عوام میں انتشار اورایک دوسرے کے خلاف نفرت کے بیچ بونے کی کوشش میں مصروف رہتاہے ، اس کے برخلاف ملک کا مسلمان اس طرح کی چیزوں پر غیر ضروری درعمل کا اظہارکرنے سے اب گریزکرنے لگاہے ، اکسانے کی ہر ممکن کوشش کے باوجوداب وہ پہلے کی طرح مشتعل نہیں ہوتا، مسلمانوں کے تعلق سے خواہ کچھ بھی پروپیگنڈہ کیا جائے تاریخی طورپر یہ بات ثابت ہے کہ برادروطن کے ساتھ اس کا رویہ ہمیشہ سے محبت اورخیرسگالی کارہاہے ، پچھلے دنوں ہاتھرس میں جو سانحہ پیش آیا برادران وطن کے ساتھ مسلمانوں نے بھی اس پر اپنے رنج وغم کااظہارکیا جمعیۃعلماء ہندنے تواس سے بھی آگے بڑھ کر نہ صرف یہ کہ اپنے ایک وفدکو ہاتھرس بھیجابلکہ متاثرین کی مالی امدادبھی کی۔ ۷جولائی کے انقلاب میں شائع ہونے والی ایک خبرکے مطابق مولانا سیدارشدمدنی کی ہدایت پر جمعیۃعلماء ہند کے وفدنے جس طرح ہاتھرس کا دورہ کیا اورمتاثرین کی دل جوئی کی میڈیا میں اس کی ستائش ہورہی ہے ، یہاں تک کہ اپنی مسلم دشمنی کے لئے مشہورکچھ ٹی وی چینلوں نے اس خبر کو نمایاں طورپر دکھایاہے ،درحقیقت ایساکرکے جمعیۃعلماء ہند نے ایک بارپھر ثابت کردیاکہ وہ مذہب سے بالاترہوکر انسانی بنیادپر امدادی وفلاحی کام کرتی ہے ، خبر کے ساتھ مولانا مدنی کا جوبیان شائع ہواہے وہ بہت اہم ہے۔ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مسلمان برادران وطن کی خوشی اورغم میں شامل ہوں کیونکہ فرقہ پرستوں کے ذریعہ دلوں میں جو دوریاں پیداکرنے کی سازشیں ہورہی ہیں اس کا یہی مثبت جواب ہے ، انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پچھلے کچھ برسوں سے فرقہ پرستی اورمذہبی شدت پسندی کو جو بڑھاواملا اورجس طرح نفرت کی سیاست شروع کی گئی اس نے لوگوں کے درمیان فاصلہ پیداکرنے کا کام کیا ہے ، اورجمعیۃعلماء ہند اپنے کرداروعمل سے اس فاصلہ کو پاٹنے کی کوشش کرتی آئی ہے ،مولانا مدنی کی بات سولہ آنہ درست ہے ، نفرت سے کبھی نفرت کا خاتمہ نہیں ہوسکتاہے اس کا علاج صرف اورصرف محبت ہے ایودھیاکا انتخابی نتیجہ اس کا ثبوت ہے کہ نفرت پھیلانے والی طاقتوں کو دھچکا ضرورلگاہے مگر انہوں نے اپنی ہارقبول نہیں کی ہے ، چنانچہ ہم طاقت سے نہیں بلکہ مولانا مدنی کے لفظوں میں محبت اور رواداری کو فروغ دیکر ہی نفرت کو شکست دے سکتے ہیں برسوں پہلے جگرمرادآبادی کہہ گئے ہیں
ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں
میراپیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

(مضمون نگارپی آئی بی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں )