میری یادوں کا اعظم گڑھ
شارق علوی
دوسری جنگ عظیم (۴۵-۱۹۳۹) اپنے شباب پر تھی ادھر مہاتما گاندھی نے انگریزوں کے خلاف تحریک عدم تعاون کا نعرہ بلند کر دیا تھا اورپورا ملک انگریز ی حکومت کے خلاف کھڑا ہوگیا تھا، اس سلسلہ میں اترپردیش کے مشرقی اضلاع زیادہ متاثر تھے، بلیا میں تو کانگریسیوں نے ریل کی پٹری اکھاڑ کر آمد ورفت کے تمام راستوں کو بند کر دیا تھا، کلکٹر اور ضلع پولس سپرنٹنڈیٹ کو مقید کرکے خزانہ پر بھی قبضہ کر لیا تھا، بڑی مشکل سے بنارس سے انگریزی کومک بلیا پہنچی اور ضلع کو دوبارہ کانگریسیوںسے چھٹکارا دلایا۔ بلیا سے متصل اعظم گڑھ کا ضلع بھی بری طرح متاثر تھا اس لئے حکومت نے طے کیا کہ بلیا اور اعظم گڑھ میں تجربہ کار اور انگریزوں کے اعتماد والا افسران کو تعینات کیا جائے۔ اس سلسلہ میں میرے ماموخاں صاحب چودھری وحید احمد جو مظنر نگر میں بحیثیت ڈپٹی کلکٹر تعینات تھے انھیں اعظم گڑھ بلایا گیا اس طرح اعظم گڑھ سے میرا تعلق قائم ہوا۔
جون۱۹۴۳ء میں موسم گرم کی تعطیل تھی ماموں صاحب کے اسرار پر مجھے اعظم گڑھ جانے کا موقعہ ملا، لکھنؤ سے صبح ۹؍بجے چلنے والی دہرہ اکسپرس سے روانگی ہوئی اور لگ بھگ چار گھنٹے کے بعد فیض آباد سے آگے جونپور ضلع کی تحصیل شاہ گنج ہماری گاڑی پہنچی ،شاہ گنج جنکشن سے اعظم گڑھ کیلئے چھوٹی لائن کی ریل گاڑی بدلنی ہوتی ہے یہ گاڑی دن میں صرف دو بار چلتی تھی صبح اور شام چنانچہ شاہ گنج ریلوے اسٹیشن پر تقریباً چار گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا وہاں سے روانہ ہوئے گاڑی کی رفتار بہت سست تھی اور دھیرے-دھیرے خراسون روڈ، سرائے میر جیسے چھوٹے-چھوٹے اسٹیشن سے گزرتی ہوئی تقریبا ۹؍بجے رات کو اعظم گڑھ پہنچے۔ ایک چھوٹا سا اسٹیشن کہیں-کہیں مٹی کے تیل سے جلتے ہوئے چراغ نظر آرہے تھے اسٹیشن کی عمارت پلیٹ فارم سے کافی بلندی پر تھی جہاں نام کاایک کمرہ تھا جس میں وہا ں کا عملہ کام کر رہاتھا، گاڑی رکتے ہی کچھ مسافر تیزی سے باہری دروازے کی طرف جاتے نظر آئے۔ اسٹیشن سے باہر آکر معلوم ہوا کہ وہاں مسافروں کیلئے صرف ایک یکہّ بغیر چھت کے تھا اور جو مسافر اس پر لپک کر بیٹھ گیا وہ تو شہر تک چلا جائے گا باقی مسافر یا تو صبح تک سواری کا انتظار کریں یا پھر تقریبا چار میل(۶؍کلومیٹر) کی مسافت پیدل کریں کیونکہ اسٹیشن سے شہر کافی دور تھا۔
مجھے کوئی زحمت نہیں ہوئی کیونکہ میرے لئے موٹر کار آئی ہوئی تھی۔ رات کے اندھیرے میں سنسان سڑک پر چل کر ہم تقریبا ً تین میل کے فاصلے پر ضلع عدالت کی عمارتوں کے پاس پہنچے وہاں سے داہنی طرف عدالت سے کچھ دور عقب میں ایک چوڑی سڑک پر آگئے ۔ یہاں سامنے ہی میری قیامگاہ تھی دن بھر کی تھکاوٹ کے بعدغسل اور رات کے کھانے سے فراغت پا کر صحن میںترتیب سے لگے ایک پلنگ پر لیٹ گئے نا کسی بجلی کی روشنی اور نا ہی پنکھا۔
صبح اٹھ کر بنگلے سے باہر نکل کر گردونواح کا معائنہ کیا۔ یہ علاقہ سول لائن کہلاتا ہے اور اسی کشادہ سڑک کے ایک طرف تقریبا یکساں بڑے کشادہ پانچ بنگلے ہیں یہ ہر ڈپٹی کلکٹر (حاکم تحصیل) کو الاٹ کئے جاتے ہیں چنانچہ اعظم گڑھ میں صدرتحصیل کو چھوڑ کر چار تحصلیں اور ہیں اس لئے ہر حاکم کو ایک بنگلہ ملا ہوا تھا۔ میرے ماموں لال گنج تحصیل سے متعلق تھے اس لئے وہ بھی ایک بنگلے میں رہتے تھے۔ بنگلوں کی نوعیت ایسی تھی کہ سامنے بڑا کشادہ لان اور پشت میں کافی بڑا صحن تھا۔
خاص بات یہ تھی کہ کسی بنگلے میں چار دیواری نہیں تھی اور نا کوئی گیٹ تھا، بنگلوں کے پیچھے ایک جنگل تھااور قریب میں ایک دریا بہتی تھی۔ کسی بنگلے میں کوئی چوکیدار نہیں رہتا تھا۔ افسران کو جو اردلی چپراسی ملے تھے وہ صرف صبح -شام بازار سے سودا لاکر چلے جاتے تھے۔ غالباً یہ انگریزی حکومت کا اقبال تھا کہ چور اور ڈاکو اس طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ ہمارے بنگلے کے سامنے ایک گرلس اسکول تھا اور کچھ دور ایک چھوٹا مگر شاندار بنگلہ سرکاری وکیل کا تھا ۔ یہاں جنریٹر سے روشن ہونے والے بلب بھی اسکی شان دوبالا کرتے تھے۔ جستجو پر معلوم ہوا کہ سوریہ ناتھ سنگھ سرکاری وکیل تھے اور زمیندار بھی تھے۔ ان کے تین لڑکے تھے دو تو مجھ سے کافی بڑے تھے اور ایک میرا ہم عمر تھا۔ تینوں لڑکوں کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ ایک الٰہ آباد میںوکالت کرتے ہوئے ہائی کورٹ کا جج ہوگیا۔ دوسرا ریلوے کے اہم عہدہ پر تعینات ریل بورڈ میں ممبر ٹرئفک ہوکر سبکدوش ہوا۔ تیسرا پولس محکمہ میں ترقی کرکے اترپردیش کا ڈائریکٹر جنرل پولس ہوکر ملازمت سے سبکدوش ہوا۔
ہفتہ عشرہ کے قیام میں علاقے میں رہنے والے کچھ ہم عمر لڑکوں سے علیک سلیک ہوگئی۔ سول لائن کی اس چوڑی سڑک پر سرکاری وکیل کی کوٹھی کے آگے انکم ٹیکس کا دفتر تھا جسکی بالائی منزل میں انکم ٹیکس افسر دلشاد نبی صاحب کا سکشن تھا انکے ماشاء اللہ کئی لڑکے تھے جن کی عمروں کا تفاوت سال ڈیڑھ سال تھا ان سے میری شناسائی ہوگئی آگے ڈی اے وی کالج کی بڑی شاندار بلڈنگ تھی اور اس سے ملحق وسیع کھیل کا میدان تھا جہاں کبھی کبھی ہم کرکٹ کی بھی مشق کرتے تھے کچھ اور آگے بڑھ کر ضلع اسپتال تھا جہاں ایک پنجابی ڈاکٹر کے لڑکے سے بھی ہم لوگوں کی راہ و رسم ہوگئی۔ بازار کی طرف آگے بڑھنے سے پہلے مشہور مشنری اسکول و یلز لی ہائی اسکول واقع ہے نہ صرف مشرقی یوپی میں بلکہ پورے صوبہ میں اسکا بڑا نام ہے ہر سال بورڈ کے ہائی اسکول کے امتحان میں یہاں کا طالب علم میرٹ لسٹ میں پہلے دس طلباء میں ضرور ہوتا تھا کہتے ہیں اول بھی رہاہے۔
ویلز لی ہائی اسکول سے گزرتے ہوئے ہم ایک کشادہ سڑک پر نکلے جو نیم پختہ نیم خام تھی اس پر ایک میدان میں قنات اور شامیانہ لگا نظر آیا، یہ رتن پکچر ہائوس تھا۔ قریب جاکر معلوم ہوا کہ زمین پر بچھے فرش پر لوگ بیٹھ کر پکچر دیکھتے ہیں، عقب میں کچھ ٹین کی کرسیاں ہیں جن پر کچھ صاحب حشمت لوگوں کو جگہ ملتی ہے، اس راستے سے گزر کر ہم اعظم گڑھ کے بازار میں آگئے ، یہاں سامنے میں ایک بڑا جنرل اسٹور اور دوائوں کی فروخت کا بورڈ نظر آیاــ’’ سراج احمد وکیل احمد اینڈ سنس‘‘ معلوم ہوا کہ یہ اعظم گڑھ کا سب سے بڑا جنرل اسٹور ہے اور اس کی ایک شاخ لکھنؤ کے امین آباد میں بھی ہے۔ اسی سڑک پر آگے چل کر ’’ پرکاش ٹاکیز‘‘ نظر آیا جو ایک باوقار بلڈنگ میں دوسرے بڑے شہروں کے سنیما گھروں کی ٹکر کا ہے۔ دونوں سنیما گھروں میں مجھے کئی بار پکچر دیکھنے کا موقعہ ملا۔
بازار سے آگے بڑ ھ کر داہنے اور بائیں طرف رہائش محلے ہیں جہاں گھنی آبادی میں لوگ بغیر بجلی اور پانی کی سپلائی کے رہ رہے ہیں۔ اعظم گڑھ میں اس وقت نا نوکوئی بجلی گھر تھا اور نا ہی واٹر ورکس لوگ مٹی کے چراغ سے گھر او دوکان روشن کرتے تھے اور کنوین کا پانی پیتے تھے۔
چونکہ اس وقت میں تقریبا دس بارہ سال کا رہا ہونگا اسلئے اعظم گڑھ سے شبلی نعمانی اور دارالمصنفین وغیرہ کے تعلق کا مجھے کوئی احساس نہیںتھا اور نا ہی مجھے اس طرف جانے کا موقعہ ملا، البتہ ماموں صاحب کے گھر میں مشہور وکیل اور شاعر اقبال سہیل اور شبلی کالج کے پرنسپل سلطان صاحب کا نام ضرورسناتھا۔
اعظم گڑھ کے مختصر قیام میں آج مجھے جو باتیں یاد آتی ہیں وہ بڑی دلچسپ اور حیرت انگیز ہیں۔ پورے شہر میں بجلی اور پانی کی تقسیم کا کوئی نظام نہیں تھا۔ سڑکیں کنکڑ اور دھول سے بنائی گئی تھیں۔ سواری کیلئے یکّہ چلتا تھا جس پر چھت نہیں ہوتی تھی کسی بھی افسر کو سرکاری موٹر گاڑی نہیں ملتی تھی ، ضلع مجسٹریٹ خوب چندآئی سی ایس تھے ان کے اور صرف دو ڈپٹی کلکٹرو ں کے پاس نجی گاڑیاں تھیں، ضلع جج، سول سرجن، منصف اور دیگر افسران سائیکل سے چلتے تھے۔ پولیس محکمے میں کپتان پولس کے علاوہ صرف ایک ڈپٹی ایس پی رہتا تھا جو یاتو گھوڑے پر گھومتے تھے یا سائیکل استعمال کرتے تھے۔ پولس کپتان کو ایک پیکپ ملی تھی جس کا وہ سختی سے سرکاری اموروں پر استعمال کیا کرتے تھے۔
مختصراً ۱۹۴۳ میں اعظم گڑھ ایک پچھڑا ہوا شہر نظر آیا جہاں کسی طرح کی کوئی بھی سہولیت لوگوں کو حاصل نہیں تھی۔غیر مسلموں میں اونچی اور نیچی ذات کا فرق صاف نظر آتا تھا۔ تعلیم کے شعبے میں بھی صرف متمول لوگ ہی اپنے بچوں کو مقامی مدارس کے علاوہ الٰہ آباد اور بنارس ہندو یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے لئے بھیجتے تھے۔ لڑکیوں کے لئے صرف ایک ہائی اسکول تک کی تعلیم کا اسکول سول لائنس میں تھا۔
تقریبا تیس سال بعد مجھے ۱۹۷۴ میںجب میری عمر ۴۰ سال کی تھی اور میں بر سرِکار تھا ایک سرکاری کام سے اعظم گڑھ جانے کا دوبارہ موقعہ ملا۔ میری اہلیہ کے بھائی وائر ورکس انجینئر کے عہدے پر تعینات تھے۔ اس بار اعظم گڑھ بدلہ بدلہ نظر آیا ،ریلوے اسٹیشن پر کسی ترقی کے آثار نظر نہیں آئے البتہ اسٹیشن کے باہر نکل کر ماحول کچھ اور ہی تھا۔بس،ٹیمپو، رکشہ اور خاصی تعداد میں موجودتھے۔ میرے لئے سرکاری گاڑی آئی تھی جس پر سوار ہوکر میں سیدھے اپنے رشتہ دار کے یہاں وائر ورکس پہنچا جس کے احاطے میں ان کا بنگلہ تھا، اسٹیشن سے بازار سے گزرتے ہوئے ہم ان کے گھرپہنچے تھے۔ دن کاوقت تھا صاف شفاف تار کول سے بنی سڑک جہاں گردو غبار کا نام نہیں بازار سے گزرتے ہوئے میں نے سجے سجائے جنرل اسٹورس رسٹورینٹ دیکھے۔پرکاس ٹاکیز اپنی جگہ پر بازار کی رونق بڑھا رہا تھا۔ شہر کی تیس سال بعد یہ بدلی ہوئی شکل دیکھ کر خوشی ہوئی۔ میں نے اپنے قیام گاہ پر پہنچ کر اپنے میزبان سے معلومات حاصل کیں۔ معلوم ہوا کہ پورے شہر میں وائر ورکس کے ذریعہ پانی مہیا کرایا جا رہاہے۔ سول لائنس میں جہاں تیس سال قبل ہم کنویں کا پانی پیتے تھے وہاںنلوں سے پانی پہنچ رہاہے۔ مقامی بجلی کا پاور ہائوس شہر کو روشن کئے ہوئے ہے۔
اس مرتبہ میں نے شبلی کالج بھی دیکھا، شاندار عمارت ہے جہاں اب پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم دی جارہی ہے ، یہی بات مجھے ڈی اے وی کالج کے بارے میں بتائی گئی۔ تیس سال قبل انٹر میڈیٹ تک کے درجات تھے لیکن پورے شہر میں کہیں سائنس کی تعلیم کا نظم نہیں تھااور ہونہار طلبہ بنارس یا فیض آباد جاکر سائنس سے انٹرمیڈیٹ کرکے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں داخلہ لیتے تھے۔
آخری بار ۱۹۷۸میں ایک سرکاری میٹنگ کے سلسلے میں اعظم گڑھ گیا تھا اس بار شاہ گنج میں ہی مجھے سرکاری گاڑی سے اعظم گڑھ کی مسافت طے کرنی پڑی۔ یہاں میرے میزبان آر شری کمار تھے ، ان کی قیام گاہ افسرس کالونی میں تھی ان کے فلیٹ پر پہنچ کر مجھے تعجب ہوا کہ ۱۹۴۳ میں جن بنگلوں سے یہ علاقہ مزین تھا انھیں بنگلوں کے درمیانی زمین پر افسروں کے دومنزلہ فلیٹ بنا دیئے گئے ہیں۔ اتفاق سے جہاں میرا قیام تھا وہ بلڈنگ میرے پرانے بنگلے کی آراضی پر ہی تعمیر کیا گیا تھا۔ بنگلہ خستہ حالت میں تھا دیکھ کر افسوس ہوا۔
اس بار قیام صرف دن بھر کے لئے تھا لیکن عوام کی چہل پہل، بازار کی رونق ، سڑکوں کی پختگی، پانی -بجلی کی فراوانی دیکھ کر خوشی ہوئی۔ کاش وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ گزشتہ ستر سال میں ملک نے کوئی ترقی نہیں کی وہ آزادی سے قبل اور آج کے حالات جائزہ لے لیں اندازہ ہو جا ئے گا کہ ملک کہاںسے کہاں پہنچ گیاہے۔
۸-سی وگیا نپوری ماہ نگر لکھنؤ 226006
رابطہـ:9453911238