ادب مختلف کیفیات اورمحسوسات کے اظہارکاذریعہ ہے:صبیحہ انور
سدریٰ ایجوکیشنل اینڈویلفیئرسوسائٹی کے زیراہتمام’اللہ میاں کاکارخانہ‘پرمذاکرہ منعقد
لکھنو: مادری زبان کو ہمیں اپنے سینے سے لگائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ مادری زبان کی کتابیں انسان کو زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ ہندی اور انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ یہاں کے طلباءکو اردو زبان و ادب کے مطالعے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔یہ باتیں اردوزبان وادب کی معروف ادیبہ وسابق پرنسپل کرا مت گرلس ڈگری کالج ڈاکٹرصبیحہ انورنے ناول’اللہ میاں کاکارخانہ‘مصنف محسن خان کی کتاب پر منعقدمذاکرے میں صدارت کرتے ہوئے لاللباغ واقع ان کی رہائش گاہ پر کہیں ،انہوں نے مزید کہاکہ ادب انسان کو انسان بناتا ہے۔ ادب مختلف کیفیات اور محسوسات کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ادب ہمیں روح کا سکون فراہم کرتا ہے۔ مذکورہ ناول طویل سفرپرمحیط،زندگی کے ہزارہاپُرپیچ مراحل،غم ناک اندھیروں اورگریزپامسرتوں کے باہم سنجوگ کا ایک آئینہ خانہ بن گےا ہے۔ جس میں ملک کی دلنواز تہذیبی میراث واقداراورتکثیری ثقافت کالازوال عکس اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ رقصاں ہے،جسے محسن خان کے فنکارانہ تخیّل،ذکاوتِ حِس اورآفاقی بصیرت کا مظہر اورخردافروزی کی ایک درخشندہ مثال سے تعبیرکیاجاسکتا ہے۔
ناول’اللہ میاں کاکارخانہ‘ کے مصنف محسن خان نے کہا کہ اچھی تخلیق کے لئے اچھے تخلیق کاروں کوپڑھنا بے حد ضروری ہے۔اچھی کتابیں اوران کے مصنفین نفرت کے راستے سے نکال کر محبت کا راستہ دکھاتے ہیں جو ملک کو ترقی کی طرف لے جاتا ہے۔ناول جس پرآج بات ہورہی ہے۔بچوں کے احساسات ،جذبات وخیالات پراس کاانحصار ہے۔اوربہت سی تہذیبی روایات کی پاسداری کاامین ہے۔ بچپن کتناسچاہوتا ہے اوراس وقت کی کچھ یادوں،باتوں،اورفطرت سے انسان کبھی منھ نہیں موڑتا۔برے سے برے انسان میں بھی کوئی اچھائی ضرور ہوتی ہے،حقیقی مصنف کو اپنے فن سے تحریک ملتی ہے،وہ کہیں ٹھہرنا نہیں چاہتا،اس کے حوصلے بلند سے بلند ترہوتے جاتے ہیں،وہ ایسی چیزو ں پرنظر رکھتا ہے،جن کوعام طورپرنظرانداز کردیاجاتا ہے۔اوریہ پہلوبہت متاثر کرنے والا ہے۔
صحافی ضیاءاللہ صدیقی(جنرل سیکریٹری سدریٰ ایجوکیشنل اینڈویلفیئر سوسائٹی) نے کہاکہ موجودہ مشینی دور میں ہم ادب کیوں پڑھیں ؟ کیا اس ترقی یافتہ دور میں ادب کا مطالعہ کسی صورت مفید ثابت ہوسکتا ہے ؟ یہ اور اس طرح کے کئی دوسرے اہم نکات کے حوالے سے اپنے تاثرات پیش کیے۔انہوں نے ادب پڑھنے اور ادب سے لگاو ¿ کو آج کے انسان کی ایک اہم ضرورت قرار دیا ۔انہوں نے موجودہ دور میں ادب سے اخلاقی تربیت کیسے حاصل کرسکتے ہیں سے متعلق بھی گفتگو کی ۔انہوں نے مزیدکہا کہ رسمی تعلیم کوبھی ہم بچے کی مانوس زبان میں نہ کرتے ہوئے اس کو ایک ایسے ماحول میں پہنچا دیتے ہیں جو اس کی شخصےت کوغیرمتوازن بناسکتا ہے۔ہم اس طرح اردو اور اپنی اولادوں دونوں کو اپنی جڑوں سے دور کررہے ہیں ۔کیا ہمیں اس مسئلہ پر ایک مرتبہ اورغور نہیں کرنا چاہئے۔ناول’اللہ میاں کاکارخانہ‘ آسان فہم زبان میں شربت کے ٹھنڈے گھونٹ کی طرح دل ودماغ میں پیوست ہوتا چلاجاتاہے،اورقاری ایک ہی مجلس میں اس کومکمل کرلینے کاخواہاں ہوتا ہے۔ جس سے خودناول نگار کے تصورانسان وآدمےت پربھی روشنی پڑتی ہے
صحافی محمدراشدخاں ندوی نے اردوزبان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج انٹرنیٹ پر ہرزبان میں ہر طرح کا تعلیمی مواد باافراط موجود ہے۔ہم چاہیں تو اپنے بچوں کو اپنی نگرانی میں جدیدترین وسائل کا استعمال کرتے ہوئے پڑھائی کراسکتے ہیں جس سے وہ اپنے کلاسوں کے نصاب پر عبور حاصل کرسکتے ہیں۔ہمیں خود اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول کےلئے کوشش کرنا ہے۔ ہماری اپنی کوششیں ہمارے بچوں کےلئے مفید ثابت ہوں گی۔ہمارے بچوں کی فلاح کے اقدامات ہمیں خود کرنا ہے۔اس کےلئے ہماری کسی بھی ادارے یا فرد پر مکمل انحصار نہیں کرسکتے۔
افسانہ نگارراجیوپرکاش ساحرنے کہاکہ اردو زبان بڑی سخت جان ہے۔ مصائب کے تھپیڑے اوراپنوں اورغیروں کی بے اعتنائیاں برداشت کرسکتی ہے مگر جب اردو والے اپنے بچوں کو دیگر زبان کے ابتدائی اسکولوں میں تعلیم دلانے لگیں گے تو یہ فنا ہوجائے گی۔انہوں نے کہا کہ اردوزبان و ادب کوآخر ہم کس طرح اپنے بچوں اور طالب علموں کیلئے دلچسپ بناسکتے ہیں اور اردو کے عام قاری تک اس کی کس طرح رسائی کرسکتے ہیں اس پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے ۔ مقبول عام ادب آج اردو زبان و ادب کا اہم حصہ ہے ۔ اردو میں نکلنے والے ڈائجسٹوں اور مختلف رسالوں،افسانوں اورناولوں نے اردو زبان کے علاوہ ادب کی بھی بڑی خدمت کی ہے۔
سماجی کارکن اورصحافیہ نائش حسن اوراہلیہ محسن خان نے کہاکہ مادری زبان کسی بھی انسان کی شناخت ہوتی ہے۔فرد مادری زبان میں سوچتا ہے،منصوبہ بندی کرتا ہے اورمختلف باتوں کوسمجھتا ہے یعنی یہ زبان فرد کی ترقی کا اہم ذریعہ ہے۔ اس زبان کی معدومیت کے ذمہ دار ہم خود بن رہے ہیں ۔ہم نے کمرشیلائزیشن کے اس زمانے میں پروپیگنڈہ کا شکار ہوکر خود اپنی جڑوں کو ختم کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔
مذاکرے کے آخرمیں شاندارضیافت اورطعام کااہتمام اہلیہ محسن خان کی جانب سے کیاگےا۔اورمہمانان کاتہہ د ل سے شکریہ اداکرتے ہوئے اہلیہ محسن خان نے کہاکہ آپ لوگوں کی سرپرستی اورحوصلہ افزائی ہمیشہ ہم لوگوں کوحاصل رہتی ہے ۔آج بھی آپ لوگوں نے اپنی مصروفیات کے باوجود حوصلہ افزائی فرمائی اس کے لئے ہم تمام اہل خانہ آپ لوگوں کے بے حدمشکوروممنون ہیں۔اس موقع پرسبھی مہمانان اور شرکاءنےمحسن خان کوبینک آف بڑوڈہ کے ذریعے ملنے والے اعزازوانعام کے لئے پھولوں کاگلدستہ پیش کرکے ان کودلی مبارکباد پیش کی،اوررمستقبل میں بھی اس طرح کی تخلیقات کے لئے نیک خواہشات بھی پیش کیں۔دیگراہم شرکاءمیں سنبل،ثمینہ،ثمرہ وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کااظہارکیا۔