خواجہ صاحب کے گستاخ اور اس کی کرنولوجی !
محمداحمد, فائونڈنگ ایڈیٹر وطن سماچار
کرونا سے پہلے ہی کرونولوجی کا لفظ سامنے آگیا تھا ۔اس لئے لوگوں کو کرونولوجی کے عہد میں کرونا کو سمجھنے میں زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔لوگ جلد ہی سمجھ گئے کہ یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کی کڑیا ں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیںاور کڑیوں کو توڑناازحد ضروری ہے۔ ان سب باتوں کو سمجھنے کیلئے ماضی کے کچھ صفحات پلٹنے کی ضرورت ہے ۔جب بی جے پی کے ایک موجودہ لیڈر سبرامینیم سوامی نے چناو جیتنے کا فارمولہ دیتے ہوئے کہاتھا کہ ’’ہندئوں کو اکٹھا کرو اور الپمت (اقلیت) میں وبھاجن (تقسیم) پیدا کرو۔مسلمان میں سنی اور شیعہ کو الگ الگ کرو ‘‘ ۔اسے سوامی نے بی جے پی اور آر ایس ایس کو ایک ماسٹر پلان کے طور پر اپنانے کا مشورہ دیا تھا ( یہ بیان انڈیا نیوز پر14 ستمبر سال 2017میں نشر ہوچکا ہے اور آج بھی یوٹیوب پر موجودہے)۔ بی جے پی کی میٹنگ میں پیش کئے گئے اس پلان پر مسلمانوں نے بی جے پی کیلئے کچھ چھوڑا ہی نہیں اور سب کچھ خود ہی کر ڈالا ۔
ابھی بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تبلیغی جماعت کا معاملہ ہوا تو کچھ مسلمانوں نے ان کے خلاف بیان بازی کی اور بیان بازی میں زبان نکال کر رکھ دی۔ اسی طرح مسلمانوں کے ایک طبقہ نے دوسرے کوگستاخ رسول اور دوسرے نے پہلے کو مشرک کہنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر کسی کو مقلد کہاگیا تو اس نے فورا غیر مقلد کہہ کر قرض چکا دیا۔ کاش آپس میں ایک دوسرے کو کافر ، مشرک، گستاخ روسول ،مقلد و غیر مقلد اور گمراہ کہنے والے ایک ساتھ بیٹھتے اور ایک دوسرے کے اندر کی اچھائیوں کو لینے کی کوشش کرتے تو اس طرح کے حالات پیدا نہیں ہوتے کہ بات خواجہ صاحب کی گستاخی تک پہونچ جاتی اور اگر ہم نے اپنا معاندانہ طرز عمل نہیں چھوڑا تو معاذاللہ بات محمد الرسول اللہ ﷺکی گستاخی تک جانے سے ہم روک نہیں پائیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب فرقہ پرستوں نے نفرت اور عداوت کی فصلیں لگانی شروع کیں تو ایک کو قریب اور دوسرے کو دور کرنے کا انگریزی فارمولہ ’بانٹو اور راج کرو‘اپنایا اور اس میں وہ پوری طرح کامیاب رہے۔ ہم میں سے کچھ یہ سمجھتے رہے کہ نفرت کے حامی ہی ہمارے محافظ ہیںاور وہ ہمیں اپنا آلہ کار نہیں بنائیں گے ۔
اس کے قتل پہ میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا
میرے قتل پہ تم بھی چپ ہو اگلا نمبر آپ کا ہے
یہ تمام باتیں چند سال قبل تک تو درست تھیں ،لیکن گذشتہ چند سالوں میں جس طرح سے آپسی لعن طعن میں کمی آئی اور ایک مذہب کے ماننے والے مختلف مسلک کے نوجوان نے پڑھ لکھ کر دنیائے عمل میں قدم رکھا تو لعن طعن کرنے والے نادان لوگوں کے پائوں تلے زمین کھسنے لگی ہے اور ان کو اپنا آگا اندھیارا لگنے لگا۔چنانچہ نوجوانوں کی علم و عرفان کا نتیجہ ہے اور اسے(علم وعرفان) معجزہ آدم بھی کہا جا نا چاہئے ، کیونکہ آدم کی اولادوں میں اگر یہ چیز نہ ہوتو پھر یہی کہا جائے گا کہ ’ با پ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو- پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو‘۔ الحمد للہ یہ چیز اب ظاہر بھی ہورہی ہے۔ جس کے سبب نہ صرف نفرت اور طعن و تشنیع میں کمی آئی بلکہ جب نادانوں نے خواجہ صاحب کو نشانہ بنایا اور جیسے ہی خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے خلاف روگی میڈیا نے اپنی بے لگام زبان دراز کی تو فوراً ایک مذہب کے ماننے والے تمام مسلک کے لوگ ایک میز پر آگئے ۔ کوئی سپریم کورٹ گیا تو کوئی پولس اسٹیشن۔ کسی نے اخباری بیان جاری کیا تو کسی نے ناراضگی کے اظہار کیلئے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کا سہارا لیا۔
اگر ہم دینی معاملے میں خود کو ابن الوقت نا سمجھتے اور اپنے فہم کو دین نہ سمجھ بیٹھے ہوتے تو آج گودی میڈیا کے لوگ خواجہ اجمیری جن کے ولی اللہ ہونے پر اپنے ہی نہیں غیر بھی قائل ہیں ،ان کی شان اقدس کی پامالی نا ہوتی۔ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ جب کوئی نادان خود کو ابن الوقت سمجھ کر آسمان کی طرف تھوکتا ہے تو اس کا تھوکا اس کے منہ پر ہی آتا ہے، کیونکہ آسمان کی تخلیق میں کوئی فطو ر نہیں ہے۔ اسی لئے خواجہ صاحب کی شان میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا اور لوگوں کو ایک بار پھر سے معین الہند کی یاد آئی ۔ ان کی محبت اور عظمت کے قصیدے گانے والوں میں بھی اضافہ ہوا۔ تاہم ہمیں خواجہ اجمیری کی شان میں جو کچھ کہاگیا اس کرونولوجی کو سمجھنے کیلئے عبدالحمید نعمانی ( معروف مفکر) کے مندرجہ ذیل فیس بک پوسٹ کو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے’’اگر جدو ناتھ سرکار کی تاریخ مراٹھا کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلے گا کہ مراٹھوں نے سب سے زیادہ لوٹ پاٹ اور غارت گری کی ہے، لیکن امیش دیوگن جیسے لوگوں کو تاریخ کا کچھ پتا نہیں ہے، ہم نے ایک بار کہا بھی تھا کہ ہم جیسے طالب علم کو جب بلایا جائے تو پڑھ لکھ کر اینکرنگ کیا کرو۔ صرف شور مچانے سے کام نہیں چلے گا۔ اسے حضرت خواجہ رح کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہے یا ضرورت سے زیادہ معلوم ہے ۔آپ رح نے ظلمت کدہ ہند میں ایمان و انسانیت کا چراغ جلایا تھا۔ اس میں برہمن واد کا فلسفہ نفرت و تفریق بھی بھسم ہو گیا تھا۔ گزشتہ کچھ دہائیوں سے ہندوتو وادی حضرت خواجہ رح سمیت صوفیاء کرام کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔ ہندو رائٹرس فورم والے اس معاملے میں پیش پیش ہیں۔ بہت سی چیزیں شائع کی ہیں، حضرت خواجہ رح اور دیگر صوفیاء کی وجہ سے ہندوتو وادیوں کا یہ دعوٰی جھوٹا ثابت ہوتا ہے کہ ہندوؤں کو زور زبردستی مسلمان بنایا گیا تھا۔ حضرت خواجہ رح نے کہاں حملہ کیا تھا اور کیا لوٹا تھا،؟ یہ درگاہ والے سوال نہیں کر سکے، وہ تو آج تک حضرت خواجہ رح کی کوئی مستند سوانح عمری تک پیش نہیں کر سکے ہیں۔صرف دیگ اور لوٹے تک آ کر رک جاتے ہیں۔ حضرت خواجہ رح تو بھارت میں رہے اور یہیں آرام فرما ہیں تو لوٹ کر کہاں لے گئے اور کس کا لوٹا تھا کہ لٹیرا قرار دیا جا رہا ہے،؟ اس سلسلے میں علمی و قانونی دونوں طریقوں کو اپنانے کی ضرورت ہے‘‘۔
مذکورہ بالا اقتباس سے ہر ذی شعور کو کرونولوجی آسانی سے سمجھ میں آجائے گی ۔اب ایک دوسرے کو لعن طعن کرنے والوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ علماء اہل حدیث کو وہابی کہہ کر گالی دی گئی اور دوسرے نے یہ کہہ کرتالی بجائی کہ وہ تو محفوظ ہے ۔پھر علماء دیوبند کو لعن طعن کرنے اور دارالعلوم دیوبند کے نصاب اور یہاں تک کہ دہشت گردی کیلئے اس طرح کے نصاب کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تب بھی باقی کے دو خاموش رہے ، لیکن اب جب خواجہ معین الہند کو نشانہ بنایاگیا تو خوشی کی بات یہ ہے کہ تینوں کے تینوں بول پڑے اور یہاں صوفیاء کا تذکرہ اس لئے نہیں کر رہا ہوں کیونکہ ان کو اپنا کوئی معین مذہب نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ مسلک سے اوپر تقرب الی اللہ کیلئے ’ما انا علیہ و اصحابی‘ کو ہی اپنا اصول سمجھتے اور جانتے ہیں نیز تکفیر سے حتی الامکان اجتناب کرتے ہیں ۔کلمہ حق کے زبان سے اعتراف کو کافی سمجھتے ہیں اور اس کیلئے شق قلب کو لازم اور ضروری نہیں قرار دیتے۔ وہ احسان کو اپنا مذہب مانتے ہیں اور اسلام و ایمان کے بغیر احسان کا تصور معدوم ہے ۔
ملک کے اولین وزیراعظم پنڈت نہرو نے علماء صادقپور کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہاتھاکہ ’ علماء صادقپور کی قربانیوں کو ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور پورے ملک کی قربانیوں کو ایک پلڑے میں تب بھی علماء صادقپور کی قربانیاں سب پر بھاری رہیں گی ‘۔ ریشمی رومال تحریک اور علماء دیوبند کی قربانیوں کو کون جھٹلا سکتا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ علامہ فضل حق خیرآبادی نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا ۔ اسی طرح ان سب کو اگر ایک چھت کے نیچے رکھ کر دیکھیں تو تاریخ کے اوراق میں یہ بات درج ہے کہ جنگ آزادی میں جمعیۃ علماء کی قربانیاں اگر کانگریس سے زیادہ نہیں تو کم بالکل نہیں ہیں ۔ 90کی دہائی کے جمعیۃ نمبرمیں یہ بات درج ہے کہ جمعیۃ علماء کو بنانے میں مولانا ثناء اللہ امرتسری ، مفتی کفایت اللہ اور عبدالباری فرنگی محلی سمیت جید اکابرین شامل تھے ،جس کے رکن مولانا آزادو دیگر اکابرین علماء بھی تھے۔ اگر شاہ ولی اللہ صاحب کی شخصیت پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ سبھی لوگ ان کو اپنانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے کوشاں ہیں۔جب جنگ آزادی میں سب ایک ساتھ تھے اور کرونا کے دور میں یہ کرونولوجی ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی ملک پر کوئی پریشانی آئی تو سب نے ساتھ مل کر کے مقابلہ کیا پھرہم آپس میں ایک دوسرے کو کافر و مشرک ، مقلد و غیر مقلد کہنے میں پوری انرجی کیوں صرف کررہے ہیں؟ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے، جبکہ محمد الرسول اللہ ﷺکا فرمان ہے کہ’ا یک مسلمان دوسرے مسلمان کیلئے ایک جسم کی طرح ہے‘۔ پھر آپس میں اتنا اختلاف کیوں؟کیا یہ سچ نہیں ہے کہ قرآن نے اہل کتاب کو دعوت دیتے ہوئے کہاہے کہ کم از کم ہم اور تم اس چیز پر تو متفق ہو ہی سکتے ہیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے۔ پھر آج کے مسلمان اس’ لا الہ الا اللہ اور محمد الرسول‘پر متفق کیوں نہیں ہوسکتے جو ان میں برابر ہے ۔
الحمد للہ نئی نسل نے اس چیز کو سمجھا اور اپنے بزرگوں کو شرافت سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ کسی بھی مسلک کا کوئی بھی جید عالم دین ہو وہ عاصی اور غاوی ہو سکتا ہے۔ اور اس کا یہ عمل حضرت آدم کی طرح نہیں ہوگا جن کے بارے میں اللہ گواہی دے رہا ہے کہ انہوںنے اس کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ ہاں !اتنا ضرور ہے کہ بنی آدم سے غلطیاں ہوں گی، لیکن مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوگی اس پر بھی ہمارا ایمان ہونا چاہئے ۔ اس لئے اب ایک دوسرے کے بارے میں نیت کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ تجس اور ایک دوسرے کی عیب جوئی کرنے کے بجائے اس کے اندر خیر کا عمل ڈھونڈھنے کی ضرورت ہے اور اگر اصلاح کرنا ضروری ہو تو اس کیلئے ہم طریقہ قرانی اختیار کریں جو حسن نہیں بلکہ احسن ہو اور جب فرعون وقت تک پیغام لے کر جائیں یا ان سے ہم کلام ہوں تواس کا اصول قول لین ہو۔امید یہ ہونی چاہئے کہ یا تو وہ نصیحت حاصل کرلے گا یا پھر اپنے ظلم و جبر سے ڈر اور خشیت کی وجہ سے رک جائے گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی کے بھی اسلاف فضیلت اور تقویٰ میں کم نہیں ہیں ۔ ان پر لعن طعن یا ان کی سرزنش کے بجائے ان کی اچھائیوں کو اجاگر کرنا اور کوتاہیوں کی تاویل صواب کی نیت سے کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔اگر ہم یہ نہیں کر سکتے تو خاموش تو رہ ہی سکتے ہیں ،کیونکہ ہم سے ان کے عمل کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ بہر حال جب نبی امی داروغہ نہیں تھے تو ہم اور ہماری حیثیت معاذ اللہ ۔ جب جید اہل حدیث علماء دین ڈپٹی نذیر حسین محدث دہلوی ابن عربی رحمہ اللہ کو خاتم ولایت محمدیہ مانتے ہیں اور ابن القیم الجوزیہ تصوف اسواق اور ارزاق کے قائل نہیں ہیں لیکن تصوف حقیقی کو وہ بھی دین مانتے ہیں تو پھر اختلاف کس چیز کا ؟کیا حسن بصری رح میں کسی کا کوئی اختلاف ہے؟ نہیں نا! پھر کس چیز کی ضد ۔ ایسے سیکڑوں نام گنائے جاسکتے ہیں جو سبھی مسالک کے اندر کامن ہیں اور خود ندوہ کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بحران کے زمانے میں شیخ ثناء اللہ امرتسری رح نے ہی اس کو بچایا تھا ۔ جب ہمارے بزرگوں میں کوئی اختلاف نہیں اور اگر انہوںنے کسی سے کچھ اختلاف کیا ہے تو کلی نہیں بلکہ جزوی تھا اور یہ سد ذرائع کیلئے رہا ہوگا ۔ اس لئے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اب کسی مسلک والے کو کسی مسلک والے پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے اور دلوں کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ اس لئے دین کے معاملے میں ہمارا یہ کہنا کہ یہ میری فہم ہے اور درستگی اللہ کو پتہ ہے ۔اگر یہ چیز ہمیں ایمان میں داخل کرتی ہے تو اللہ کی قسم میںہی سچ اور صواب جانتا ہوں یہ ہمیں ضلالت کی طرف لے جاتا ہے ۔
اس لئے اختلاف کو ترک کرکے نفرت کے خلاف لڑائی میں ہر اس اصول کو اپنا نے کی ضرورت ہے جس کی اجازت ہمیں ہمارا آئین دیتا ہے ۔تبھی فرقہ پرستی کا جواب دیا جاسکتا ہے اور تبھی اس کرونولوجی کی کڑیوں کو توڑا جاسکتا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ پوری امت اس فسادی میڈیا کے پیچھے نہ لگ کرکے امت کے کچھ افراد آئینی اور قانونی طور پر اس معاملے کو اٹھا ئیں اور باقی ملک کی تعمیر و ترقی کے اپنے مشن کی طرف رواں دواں رہیں ۔یقین رکھئے: ’شاخیں رہیں تو پھول بھی پتے بھی آئیں گے -یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے ‘۔