اسلام اور مو سم سر ما
مولانامحمد رضا ایلیا ؔمبارکپوری
موبائل نمبر:9369521135
عصر جدید سائنس کا دور ہے اگر چہ آفتاب سائنس ماضی قریب میں طلوع ہوا ہے تاہم نئی دریافت یہ تصدیق کرتی ہے کہ یہ دنیا کا تخلیقی کارنامہ ایک حکیم مطلق یعنی خالق و پر وردگار کا ہی مر ہون منت ہے ۔ ’’ڈارون‘‘ کے بعد کی اس ایک صدی میں انسان نے عظیم الشان ایجادات کی ہیں اور ہم ایک ایسے سر چشمہ علم سے بہرہ مند ہوئے ہیں جہاں سائنس اپنے عجز کے اقرار کے ساتھ خدا پر ایمان کو مستحکم کرتی ہے اور ہم خدا کی حقیقت سے قریب سے قریب تر ہو تے جا رہے ہیں ۔ مشاہدۂ قدرت اور جدید سائنسی علم (ریاضی ، جغرافیہ ، فلسفہ اور علم حیوانات وغیرہ ) سے ان چند دلائل نے خدا پر ایمان کو اور زیا دہ مستحکم کردیا ساتھ ساتھ با معنی اور ترو تازہ نیز مو ضوع تحقیق دے دیا ہے اور آپ سب بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔
روایت سے یہ بات ثا بت ہے جس میں امام محمد باقر؈نے فرمایا :’’اگرانسان آسمان و زمین کی خلقت اور شب و روزکا آنا جانا نیز گردش فلک ، شمس و قمر کی رفتار وغیرہ کے بارے میں یہ غور و فکر نہ کرے کہ ان کے پیچھے ایک بڑی قوت کار فرما ہے تو وہ آخرت میں اندھا اور راہ گم کر دہ محشور ہو گا۔ ‘‘یعنی ہر وقت اس دنیا کی چیزوں پر غور و فکر کرنا ہمارا اولین فریضہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ حضرت علیؑنے فرمایا: ’’ اپنے دلوں کو غور و فکر سے بیدار کرو ۔ رات کو سجدہ میں بسر کرو اور پر وردگار عالم سے ڈرو۔ ‘‘ ( تفسیر انوار النجف جلد 4 ص96)
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ.الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.
’’بے شک زمین و آسمان کی خلقت،دن ورات کے بدلنے میں صاحبانِ عقل کے لئے قدرت کی نشانیاں ہیں۔جو لوگ اٹھتے، بیٹھتے، لیٹتے خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غوروفکر کرتے ہیں… کہ خدایا تو نے یہ سب بے کار نہیں پیدا کیا ہے- تو پاک و بے نیاز ہے ہمیں عذاب جہنم سے محفوظ فرما ۔(سورہ آل عمران آیت نمبر 190اور 191)
ہم سارے انسانوں میں زیا دہ تر یہ سمجھتے ہیں کہ نماز و روزہ حج و زکات و خمس بس اسی کا نام عبادت ہے باقی چیزیں سبھی ضروریات زندگی میں شامل ہیں ۔ ہم سب یہ بھول جا تے ہیں اللہ نے جگہ جگہ پر ہمیں دعوت تحقیق دی ہے ۔ بار بار کہا ہے ’’ کیا تم غور نہیں کرتے ‘‘ ، ’’ کیا تم صاحبان عقل نہیں ہو ‘‘، ’’ کیاتم صاحب فکر نہیں ہو ‘‘ وغیرہ وغیرہ ،امام جعفرصادقؑنے فرمایا: ’’ تمام عبادتوں سے بہتراللہ اور اس کی قدرت میں تفکر و تدبر کرنا ہے ۔ ‘‘
قرآن میں ایک مقام پر انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرتا ہے ۔أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ.وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ . وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ. وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ. فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ .
ترجمہ: کیا یہ لوگ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے ہیں کہ اسے کس طرح پیدا کیا گیا ہے. اور آسمان کو کس طرح بلند کیا گیا ہے. اور پہاڑ کو کس طرح نصب کیا گیا ہے. اور زمین کو کس طرح بچھایا گیا ہے. لہذا تم نصیحت کرتے رہو کہ تم صرف نصیحت کرنے والے ہو(سورہ غاشیہ آیت نمبر 17-20)
یعنی خدا وند عالم نے ہر شے کے بارے میںغور وفکر کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔پر وردگار عالم نے سورہ غاشیہ میںانسانون کو علم حیوانات ، (Zoology)، علم فلکیات (Astronomy)، علم الجبل (orology)،علم الارضیات(Geology) وغیرہ میں معلومات حاصل کرنے کے لیے کہا ہے ۔ یعنی انسان کو اللہ نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اللہ کی بنائی ہوئی ہر شے کے بارے تحقیق کرے کیوں جب وہ اس دنیا کے بارے میں غور و فکر کرے گا تم اس کا ذہن کھلے گا اور نئی نئی چیز وںکے بار ے علم حا صل ہو گا۔پر وردگار عالم انسان کو علم کے ہر میدان کو فتح کرنے کی دعوت دیتا ہے ، علم کے ہر شعبے سے روشناس کرانے میں اپنا بھر پور تعاون دینے کا وعدہ بھی کیا ہے ۔ اللہ کے علا وہ مولانا علیؑفرماتے ہیں : ’’ ائے انسان کیا سمجھتا ہے کہ تو ایک چھوٹی سی مخلوق ہے ؟ نہیں نہیں!! ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ جان لو اور خوب غور وفکر کر لو کہ تمہارے اندر ایک بڑی کائنات پو شیدہ ہے ۔ بس تم کوا سے پہچاننے کی ضرور ت ہے ۔ ‘‘
امام علی رضا؈نے فرمایا:’’ عبادت نماز و روزہ کی زیا د تی کا نام نہیں ہے بلکہ عبادت توحید میں فکر کا نام عبادت ہے ۔اسی طرح پیغمبر اسلامﷺنے فرمایا:’’ اللہ کے نزدیک اس شخص کی قدرو منزلت زیادہ ہے جو کھائے کم اورغورو فکر زیا دہ کرے ۔قابل نفرت یعنی مبغوض ترین انسان وہ ہے جو زیا دہ کھاکر سونے میں گزاردے ۔انسان کو چاہیے کہ خلق خدا میں تفکر کیا کرے ۔‘‘ ، ایک جگہ پراور پیغمبراسلامﷺنے فرمایا:’’ ائے انسان اپنی آنکھوں کو عبادت سے حصہ دیا کرو اور وہ یہ ہے کہ قرآن میں نظر کرو اور پھر واس میں ریسرچ کرو اس کے ساتھ ساتھ عجائبات دیکھ کر ان سے سبق حا صل کر و ‘‘ ۔ حضرت عیسیٰ؈ نے سوال کیا گیا کہ ’’ بہتر انسان کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جس کا بولنا ذکر ہو ، خاموشی فکر ہو اور نظر برائے عبرت ہو ۔
انسان جب آسمان و زمین کے وجود اور ان میں نت نئے حادثات ہونے والے عجائبات و غرائبات کا مطالعہ کرتاہے تو یقین پیدا ہوتا ہے کہ جو چیز حو ادث کا محل و مقام ہے وہ خود بھی حا دث ہے تو ما ننا پڑے گا کہ آسمان و زمین کو وجود ازلی نہیں بلکہ ایک وقت میں یہ سب نہ تھے پھر وجود میں آئے لہذا ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ ان کس نے پیدا کیا ہے ان کے بارے میں ریسر چ کرنا ہمارافرض عینی ہے کیونکہ ان تمام چیزوں کے حدوث و وجود ان کے خالق حقیقی کے وجود کی دلیل ہے ۔پروردگار عالم نے زمین و آسمان کی پیدائش اور دن رات کی تبدیلی میں اہل عقل کے لیے کئی نصیحتیں اور نشانیاں رکھی ہیں۔ موسموں کا آنا، ماہ وسال کا گزرنا، ہرے بھرے درختوں کا سوکھ کر جھڑنا، پتوں کا ٹوٹ کر گرنااور موسم بہارمیں ہرے بھرے ہو جانا یہ بتاتا ہے کہ ہر چیزعروج کو زوال ہے کوئی بھی چیز ابدی نہیں۔
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
جنت کے موسم کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوتا ہے ۔
مُتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا
اہل بہشت جنت میں اونچی مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اور جنت میں نہ سورج کی گرمی دیکھیں گے اور نہ سردی کی ٹھنڈک۔(سورہ انسان آیت نمبر 13)
موسم سرما یہ پیغام دیتا ہے کہ جس طرح میرے آنے سے درختوں کی دلکشی اور رعنائی عنقاہوجاتی ہے۔ درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں، خس و خاشاک کی شکل میں کچرے کے ڈھیروں پر جمع ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی انسان کا ایک وقت مقرر ہے، موت کے آتے ہی ساری لذتیں بے کارہوجاتی ہیں اور اس وقت وہ ساری تمناؤں اور تمام خواہشات کو چھوڑ کر اپنی اصل منزل کی طرف گامزن ہوجاتا ہے، لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وقت رہتے ہی اپنی حقیقی منزل کو پہچانے اور اس کی تیاری کرے، قبل اس کے کہ فرشتہ اجل لبیک کہہ دے۔ الله رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس موسم سرما کو ہمارے لیے خیر کا باعث بنائے۔
حضرت علی ؈اور موسم سرما
حضرت علیؑنے فرمایا: ………..
تَوَقَّوا الْبَرْدَ فِي أَوَّلِهِ، وَتَلَقَّوْهُ فِي آخِرِهِ، فَإِنَّهُ يَفْعَلُ فِي الْاَبْدَاْنِ كَفِعْلِهِ فِي الْاَشْجَارِ، أَوَّلُهُ يُحْرِقُ وَآخِرُهُ يُوْرقُ.
ترجمہ:’’ شروع سردی میں ٹھنڈک سے احتیاط کرو اور آخر میں اس کااستقبال کرو، کیونکہ سردی جسموں میں وہی اثر کرتی ہے، جو وہ درختو ں میں کرتی ہے کہ ابتدائی میں درختوں کو جھلسا دیتی ہے، اور انتہا میں اسے ہرا بھرابنادیتی ہے۔‘‘(نہج البلاغہ حکمت نمبر -128)
موسم خزاں میںسردی سے بچاؤاس لیے ضروری ہے کہ موسم کی تبدیلی سے مزاج میںبدلاؤ پیدا ہوجاتا ہے اور نزلہ و زکام اور کھانسی وغیرہ کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے ۔وجہ یہ ہوتی ہے کہ موسم گرما (مئی ، جون اور جولائی) میںبد ن گرمی کاعادی ہوچکا ہوتا ہے پھر سردی کا مو سم شروع ہو تا ہے تو انسان کو سردی کا سامنا کرتاہے اور سردی سے دوچار ہوجاتا ہے جس سے دماغ کے چھوٹے چھوٹے سوراخ سکڑجاتے ہیںاور مزاج میں سردی ( ٹھنڈی) و پیوست بڑھ جاتی ہے اسی لیے حکما اور طبیبوں نےگرم پانی سے غسل کرنے کے بعد فورا ًٹھنڈے پانی سے نہانا مضربتایا ہےکیونکہ گرم پانی سے بدن کے باریک باریک سوراخ کھل چکے ہوتے ہیںاور پھر جب وہ ٹھنڈے پانی سے نہاتا ہے تو سرد پانی کے اثرات کوبدن فوراًقبول کرلیتا ہےجس کی وجہ سے انسان نزلہ ،بخار ، وبائی امراض میں مبتلا ہو جا تا ہے ۔
حضرت علی رضا؈ اور مو سم سرما
موسم سرما تمام بیماریوں سے تحفظ کے لیے امام علی رضا؈نے نایاب نسخہ تجویز کیا ہے جو ہر زمانے کے لیے مفید اور کار آمد ہے ۔ انہوںنے فرمایا :’’جو شخص چاہتاہے کہ اس کو سردی کے دنوں میں زکام نہ ہو وہ تین چمچے شہد کے روزانہ پی لیا کرے ۔ نرگس کے پھولوں کا سونجھنا بھی سردی کے زمانے میں زکام نہیں ہونے دے گی یہی خاصیت کالے دانے(کلونجی) کی ہے ۔‘‘(طب امام علی رضاؑ، ص24)
موسم سرما میں جو فطری حرارت ہے ( یعنی جو بدن کے اندر گرمی ہوتی ہے ) اس کو نقصان پہنچتا ہے البتہ موسم بہار میں سردی سے بچاؤ کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ وہ صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ پہلے ہی سے سردی سے ہمارا بدن عادی ہوچکا ہوتا ہے اس لیے بہار کی درمیانہ سردی بدن پر ناخوشگوار اثرنہیں ڈالتی،بلکہ جب سردی ختم ہونے لگی ہے تو بدن میں حرارت و رطوبت بڑھ جاتی ہے جس سے جسم میں نشوونما میں قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے ،حرارت غریزی(جسم کی طبعی گرمی جس کی بنیاد پر زندگی قائم ہے) ابھرتی ہے اور جسم میں نمو طبیعت میں شگفتگی اور روح میں ترو تازگی پیدا ہوتی ہے ۔
رسول خداﷺاور مو سم سرما
حضرت ابو سعید روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ سردی کا موسم مومن کے لئے موسم بہار ہے کیونکہ اس کے دن چھوٹے ہوتے ہیں جن میں انسان روزے آسانی سے رکھ لیتا ہے اور اس کی راتیں لمبی ہوتی ہیں جن میں وہ عبادت سکون سے کرلیتا ہے۔‘‘
اسی طرح عالم نباتا ت(پیڑ پو دے) پر بھی تبدیلی موسم کا یہی اثر ہوتا ہے چنانچہ موسم خزاں میںسردی کے غالب آنے سے پتے مرجھا جاتے ہیں روح نباتاتی مرجھا جاتی ہے،چمن کی حسن و تازگی مٹ جاتی ہے اور سبزہ زاروں پر موت کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور موسم بہار ان کے لیے زندگی کا پیغام لے کر آتا ہے او ربار آور ہواؤں کے چلنے سے پتے اور شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں اور شجر سر سبز و شاداب اور دشت و صحرا سبزہ پوش ہوجاتے ہیں ۔
حضرت علی ؈نے فرمایا:’’مجھے تین چیزیں بہت پسند ہیں :سخت گرمی کے روزے :سخت سردی میں فجر کی نماز اور تلوار کے ساتھ الله کی راہ میں جہاد :‘‘(مستدرک الوسائل ،ج:16، ص 259)
حضرت مریم؉کی وفات کے بعد خواہش
موسم کےمعتدل دنوں میں عبادت کرنا روحانی لذت ضرور ہےمگر معصومین؊ کی نظر میں موسم سرما اور موسم گرماکے مخصو ص دنوںمیںعبادت کرنے کا مزہ کچھ اور ہی ہے ۔ موسم سر ما نماز پڑھنے کااور موسم گرما میں روزہ رکھنا معصومین؊ کی پسندیدگی کا سبب ہےاورکا اتنا اجر وثواب ہے کہ روایت کے منابع میںذکرہوا ہے کہ حضرت مریمؑ نے اپنی وفات کے بعد اس دنیا میں واپس آنے اور اس کے گرم موسم اورسرد موسم میں اس واجبات الٰہی کو انجام دینے کی خواہش ظاہر کی۔ مرسلی کی روایت میں اسے روایت کے ذرائع سے نقل کیا گیا ہے۔
رُوِيَ أَنَّ عِيسَى؈ نَادَى أُمَّهُ مَرْيَمَ بَعْدَ وَفَاتِهَا ، فَقَالَ : ’’ يَا أُمَّاهُ كَلِّمِيْنِيْ ، هَلْ تُرِيْدِيْنَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى الدُّنْيَا ‘‘؟قَالَتْ : نَعَمْ ، لِأُصَلِّيَ لِلهِ فِي لَيْلَةٍ شَدِيْدَةِ الْبَرْدِ ، وَ أَصُوْمَ يَوْماً شَدِيْدَ الْحَرِّ يَا بُنَيَّ ، فَإِنَّ الطَّرِيقَ مَخُوفٌ‘‘
ترجمہ :حضرت مریم ؉کی وفات کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی ماں کو آواز دی اور فرمایا ”ماں مجھ سے بات کریں، کیا آپ دنیا میں واپس آنا چاہتی ہیں؟“ حضرت عیسیٰ کی ماں نے جواب دیا ’’ہاں ‘‘میری آرزو اور خواہش ہے کہ اگرمیںدنیا میں ہوتی توسخت ٹھنڈک والی راتوں میںبارگاہ الٰہی میں ایسےمناجات اور عبادات کو انجام دیتی یہاں تک کہ صبح نمودار ہو جائے اور سخت گرمیوں والے دنوں میں روزہ رکھتی ۔) مستدرک وسائل الشيعہ : 6 ؍ 338
اسلام میں ملٹی وٹامن چیزیں
حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا:مَا اَنْزَلَ الله دَآءً اِلَّا اَنْزَلَ لَہٗ شِفَآءً’’اللہ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں فرمائی جس کی شفا نہ اتاری ہو۔‘‘(بحار الانوار جلد 59ص 70)حضرت امام جعفر صادقؑنے فرمایا:’’ ابلا ( گرم پانی ) صحت کے لیے فائدہ مند ہے اور ہر بیماری اورو بائی امراض کے دوا بھی ہے۔‘‘(طب نبی اکرم صفحہ نمبر 45)حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا:’’کلونجی (منگریلا ) کوضرور کھایا کرواس میں ہر بیماری کا علاج ہے سوائے موت کے۔‘‘(طب اسلام صفحہ نمبر – 29)حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا:’’شہد ہر مرض کی دوا ہے ۔ 70 پیغمبروں نے شہد کو برکت کی دعادی ہے.‘‘(طب نبی اکرم صفحہ نمبر 140)حضرت امام جعفر صادقؑنے فرمایا:’’ اگر کوئی شخص نہار منھ 7 ؍کھجورکھائے تو کوئی زہر، وبائی مرض نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘‘(طب نبی اکرم صفحہ نمبر – 108)