اجتماعی و انفرادی زندگی میں مداخلت اور سیاسی شعبدہ بازی
عادل فراز
زمام اقتدار سنبھالتے ہی مودی سرکار اپنی منافرانہ پالیسیوں کو لیکر بدنام رہی ہے ۔ایسا محسوس ہورہاہے کہ جیسے سرکار کی ہرحکمت عملی نفرت آمیز سیاست کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی ۔کیونکہ اکثریتی طبقے کے دل و دماغ میں اس قدر نفرت کا زہر بھردیا گیاہے کہ اب سرکار کو اپنی ہر پالیسی میں اس زہر کا ہلکا سا ڈوزضرور شامل کرنا پڑرہاہے ۔یا یوں کہاجائے کہ اب نفرت آمیز سیاست سرکار کی مجبوری بن گئی ہے ۔گزشتہ پچاس سالوں میں نفرت کا جو بیج بویا گیا تھا اب اس کی فصل کاٹی جارہی ہے ۔اس فصل کی کٹائی سے اقلیتی طبقے کو کتنا خسارہ ہواہے اس کا اندازہ تو مقرر کیا جاسکتاہے مگر ملک کی سالمیت اور جمہوریت کو کتنانقصان پہونچا ، اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ۔
سی ۔اے۔اے۔ اور این ۔آر۔سی۔ کا نفاذ ملک کے اقلیتی طبقے کو ہدف بناکر کیا گیا تھا ۔اکثریتی طبقے پر یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ دونوں قوانین ملک کی سرحدوں میں دراندازی کرنے والے مسلمانوں اور ہندوستان میں غیر آئینی طورپر بسنے والے افرادکے خلاف ہیں ۔لہذا جس وقت ان قوانین کے خلاف احتجاج کے لئے مسلمان سڑکوں پر اترے اس وقت اکثریتی طبقہ سرکار کی حمایت میں پوری طاقت کے ساتھ کھڑا نظرآیا ۔مگر وہ دانشور طبقہ جو سرکار کی نیت سے اچھی طرح واقف تھا اور جمہوری و آئینی نظام سے کھلواڑ کو دیکھ اور سمجھ رہا تھا ،اس نے سرکار کی غیر آئینی اور آمرانہ پالیسیوں کی سخت مذمت کی اور اس کے خلاف پروزور احتجاج کیا ۔سرکار کو یہ لگ رہاتھا کہ انہوں نے ملک کے تمام ہندوئوں کو نفرت کا زہر پلادیا ہے اور اب انہیں کسی تریاق کی امید نہیں ہے مگر یہ دانشور طبقہ جو ہندو سماج کے درمیان ہی زندگی گزارتاہے ،تریاق بن کر سامنے آیا اور اس زہر کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کی ۔ظاہرہے گزشتہ پچاس سالوں سے دیے جارہے’سلوپوئزین‘کے اثر کو اچانک ختم نہیں کیا جاسکتا مگر کم ضرور کیا جاسکتاہے ۔آج صورتحال ہے یہ کہ جب ملک کا کسان اپنے حقوق کی بازیابی اور تحفظ کے لئے سڑکوں پر ہے ،سرکار اپنے آلۂ کاروں کے ذریعہ انہیں بھی بدنام کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔نفرت کے زہر کی وہی پرانی بوتل ایک بار پھر نکالی گئی اور سماج میں زہر پھیلادیا گیا ۔کسانوں کو ’خالصتانی‘ کہا جارہاہے ،انہیں پاکستان نواز اور ملک دشمن قرار دیاجارہاہے ۔افسوس یہ ہے کہ ملک کے اکثریتی طبقے کا بڑا حصہ سرکار کی اس سازش کا شکار ہوچکاہے اور وہ کسانوں کو ملک اور آئین کا دشمن سمجھ رہاہے ۔آج ہر اس فرد اور مذہب و مسلک کو ملک کا دشمن قرار دیاجارہاہے جو سرکار کی غلط پالیسیوں اور نفرت آمیز سیاست کے خلاف ہے۔ملک کا سچا وفادار وہ ہے جو بی جے پی اور آرایس ایس کاحامی و ناصر ہو۔
حال ہی میں اترپردیش کی یوگی حکومت نے نام نہاد’ لوجہاد‘ کو لیکر قانون سازی کی ہے جس میں بین مذاہب شادیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے ۔اس قانون کی آڑ میں مسلمانوں کو ہراساں کیا جارہاہے اورمسلم نوجوانوں کے ساتھ پولیس بربریت کا مظاہرہ کررہی ہے ۔انتظامیہ کی ذہن سازی اقلیتی طبقے کے خلاف کی جاری ہے اور آج عالم یہ ہے کہ پولیس اقلیتی طبقے کے خلاف غیر آئینی امور انجام دے رہی ہے جس کے شواہد موجود ہیں ۔اترپردیش کے علاوہ دیگر کئی ریاستوں میں ’لوجہاد ‘ کے خلاف قانون سازی عمل میں آئی ہے جس کا واحد مقصد اقلیتوں کو ہراساں کرنا ہے ۔ورنہ ’لوجہاد‘ کی زمینی حقیقت سے ملک کی حفاظتی سرکاری ایجنسیاں انکار کرچکی ہیں اس کے باوجود اس قانون کا عمل میں لانا اس بات کی دلیل ہے کہ سرکار ملک کی حفاظتی ایجنسیوں کی رپوٹ کو قابل اعتبار نہیں سمجھتی ۔اس قانون سازی کا ہدف بھی اکثریتی طبقے کے بڑے حلقے کو خوش کرنے کے لئے کیا گیاہے ۔ملک کابڑا حلقہ یہ سمجھتاہے کہ مسلمان ’لو جہاد‘ کو فروغ دے رہے ہیں اور ہندو لڑکیوں کو عشق کے جال میں پھنسا کر شادیاں کرتے ہیں اور پھر ان کا مذہب تبدیل کروادیا جاتاہے۔حالانکہ ہندوستان میں بین مذاہب شادیوں کا مسئلہ کوئی نیانہیں ہے ۔سیکڑوں سال سے ایسا ہوتاآیا ہے اور آئندہ بھی ضروری نہیں کہ یہ سلسلہ ختم ہو ۔ہندو مسلمان لڑکیوں سے شادی کرتے رہے ہیں اور مسلمان ہندو لڑکیوںسے۔مگر کبھی ’لو جہاد ‘ کی بات سامنے نہیں آئی بلکہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے کوئی اس اصطلاح سے واقف بھی نہیں تھا ۔آج اس فرضی اصطلاح کو قانونی حیثیت دیدی گئی ہے جو ملک کے عوام کے ساتھ فریب اور جعل سازی ہے ۔جمہوری نظام میں انسان اپنی پسند کی شادی کے لئے آزاد ہے مگر ہمارا جمہوری نظام یرقانی تنظیموں کے نفرت آمیز آئین کی زد پر ہے جس میں اقلیتی طبقے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔یہ نظام برہمن واد کو فروغ دے رہاہے اور اکثریتی طبقے کو گمراہ کرنے کا کام کیا جارہاہے ۔
نفرت کا یہ کھیل اتنا فروغ پارہاہے کہ اب بی جے پی سرکار نے مدارس کے وجود کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی شروع کردی ہے ۔آسام میں سرکاری مدارس زد پر ہیں اور انہیں تمام تر مراعات سے محروم کرنے کی تیاری ہے ۔ہمارا مؤقف تو یہ ہے کہ مدارس کو سرکار سے کوئی کمک نہیں لینی چاہئے ۔جب سے ہمارے مدارس کے نظام میں سرکار دخیل ہوئی ہے مدارس روبہ زوال ہیں بلکہ یوں کہاجائے کہ مدارس کی اصلی حیثیت ختم ہوگئی ہے ۔مدارس کے موروثی ذمہ داران نے مدارس کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے سرکار کے حوالے کردیا تاکہ ان کے اہل خاندان اور رشتے داروں کو سرکاریاں نوکریاں مل سکیں ۔مگر انہوں نے کبھی یہ فکر نہیں کی کہ مدارس جو ملت کا سرمایہ ہیں ،ان کا وجود خطرے میں پڑجائے گا ۔آج عالم یہ ہے کہ مدارس کا نظام درہم و برہم ہے اور سرکار ان کے وجود کو ختم کرنے کے لئے قانون سازی کرنے جارہی ہے ۔یوگی حکومت بھی ایک آرڈیننس لانے کی تیاری میں ہے جس کے مطابق مذہبی و ذاتی زمینوں پر جو مذہبی عمارتیں تعمیر ہوئی ہیں ان پر کنڑول کیا جاسکے ۔اس آرڈیننس کا اطلاق تمام مذہبی عمارتوں پر ہوگا جس میں مساجد،مدارس،امام بارگاہیں،درگاہیںاور خانقاہیں شامل ہیں ۔اس آرڈیننس کی آڑ میں مذہبی عمارتوں کے معاملات میں کس حدتک مداخلت کی جاسکتی ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ،مگر ہماری مذہبی قیادت کی بے حسی اور مسلم لیڈوں کی بے ضمیری کا عالم یہ ہے کہ وہ خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ۔وہ شترمرغ کی طرح ریت میں گردن ڈال کر خود محفوظ سمجھ رہے ہیں ،جبکہ شکاری ان کے سروں پرمسلط ہے اور کبھی بھی ان کی گردن قلم ہوسکتی ہے ۔
نفرت کی اس سیاست کا دائرہ بہت وسیع ہے جو اب خوردنی اشیاء کو بھی اپنے دائرے میں سمیٹ رہاہے ۔گائے کے تحفظ کے نام پر کس قدر اقلیتی طبقے کو ہراساں کیا گیا اور ان کے جوانوں کو کس طرح بے دریغ قتل کیا گیا یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔اب مسلمانوں کے اقتصادی نظام کو بھی نقصان پہونچانے کی تیاری ہے ۔سال ۲۰۱۸ ء میں مشرقی دہلی کی میونسپل کارپوریشن نے یہ فیصلہ لیا تھاکہ تمام گوشت فروخت کرنے والی دوکانیں اور ریستوراں نمایاں طورپر گراہکوں کو یہ بتائیں کہ وہ کس قسم کا گوشت فروخت کررہے ہیں ۔حال ہی میں جنوبی دہلی کی میونسپل کارپوریشن کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے بھی یہ تجویز پاس کردی جس کے مطابق ہر گوشت فروش کو نمایاں تحریر کے ذریعہ گراہکوں کو یہ بتلانا ہوگا کہ گوشت حلال ہے یا جھٹکا۔ان کے مطابق ہندو اور سکھ ذبیحہ کا گوشت نہیں کھاتے ہیں لہذا گوشت فروشوں کو گراہکوں کے لئے اطلاعیہ تحریرکرنے کی ضرورت ہے ۔اس تجویز کے نقصانات اور اہداف پر پھر کبھی لکھا جائے گا لیکن کم از کم یہ حقیقت تو معلوم ہوگئی کہ ہندوئوں کا بڑا طبقہ گوشت خور ہے ۔اب سرکاری تنظیموں کو یہ بھی بتادینا چاہئے کہ ملک میں کتنے فیصد غیر مسلم آبادی بیف کھانے میں دلچسپی رکھتی ہے ۔یہ انسان کی پسند و ناپسند پر منحصر ہے جس میں سرکار کی بیجا مداخلت آئین مخالف ہے ۔
بہر کیف ! ہندوستان کی سیاست نفرت اور تقسیم پر منحصر ہوگئی ہے ۔اجتماعی اور انفرادی زندگی میں مداخلت کی جارہی ہے ۔آزادی ٔ اظہار پر قدغن ہے اور مذہبی عبادت گاہوں اور عمارتوں کو بھی سرکار اپنے کنٹرول میں لینے کی تیاری کررہی ہے ۔اس کے بعد بھی اگر کہیں سے سرکار کے خلاف آواز اٹھتی ہے تو اس پر ’دیش دروہ‘ کا الزام عائد کرکے دبادیا جاتاہے ۔کیا یہی جمہوری نظام ہے جس پر ہمیں فخر ہے ؟ ہر گز نہیں! تو پھر سرکار یہ اعلان کیوں نہیں کرتی کہ ملک میں جمہوری نظام ختم کرکے بی جے پی اور آرایس ایس کے آئین کو نافذ کیا جارہاہے ۔آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کئی بار اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں مگر اب انہیں کھل کر اس حقیقت کا اظہار کردینا چاہئے تاکہ شک و تردد ختم ہوجائے ۔