عید قرباں
محمد عارف نگرامی
ذی الحجہ کی آمد قربانی و حج کا پیغام لاتی ہے ۔ قربانی کا خیال آتے ہی اسمٰعیل ذبیح اللہ کی گردن پر ابراھیم ؑ کے چھری چلانے کا منظر نگاہوں میں پھر جاتا ہے ۔اور حج کے تصور سے کعبہ کے سایہ میں معصوم اور ننھے منھے اسمٰعیلؑ کا پیاس سے ایڑی رگڑنے اور ممتا کی ماری ہوئی حضرت ھاجرہ کا صفا و مروہ کے درمیان بے تابانہ دوڑنے کا دل گداز نقش نگاہوں میں پھرنے لگتا ہے دونوں ہی منظرمالک و خالق کے حکم پر سر جھکانے کا حیرت انگیز نقشہ پیش کرتے ہیں ۔اس بے آب و گیاہ سرزمین میں بیوی بچے چھوڑ کر حکم خداوندی کی تعمیل میں جب حضرت ابراھیمؑ چلے تو حضرت ہاجرہ نے حیرت سے پوچھا اس معصوم بچے اور مجھ عورت ذات کو اس ویرانے میں چھوڑ کر کہاں چلے ؟ حضرت ابراھیم ؑنے فرمایا خدا کے حکم سے جارہا ہوں ۔جواب سن کر حضرت ہاجرہ کا دل صبر و توکل سے معمور ہوگیا ۔اور فرمایا کہ خدا کے حکم سے جارہے ہیں تو خدا ہم کو ضائع نہیں کرے گا ۔جانے والے باپ و شوہر اور جانے والی بیوی اور شیر خوار بچے کا یہ امتحان کوئی معمولی امتحان نہ تھا ۔جانے والے خدا پر توکل و بھروسہ کرکے گیا تھا۔رہنے والے خدا ہی کے بھروسے پر ٹہرے تھے۔
کافی عرصے کے بعد حضرت ابراھیم ؑ آتے ہیں بیوی بچے سے صحت و عافیت کی حالت میں ملتے ہیں آنکھوں کو نور اور دل کو سرور حاصل ہوتا ہے ،لیکن خوشی کے زیادہ دن نہیں گزرنے پاتے کہ اپنے اس جگر گوشہ کو خدا کے نام پر ذبح کردو ہر وہ شخص جو سینے میں دل رکھتا ہے آنکھوں کے سامنے ہنستا کھیلتا مسرت سے مچلتا جگر گوشہ کی معصوم صورت دیکھ کر خوش ہوتا ہے ۔اوراس منظر سے اس کا دل اچھلتا ہے ۔ ذرا سوچئے کہ اس جگر گوشہ کی گردن پرچھری چلاناکتنا مشکل کام ہے ؟
لیکن دنیا نے دیکھا کہ اس مشکل ترین قربانی کو پیش کرنے میں بھی حضرت ابراھیم ؑ کامیاب ہوگئے ۔اور ہر مومن بندہ و بندی کے لئے یہ نمونہ چھوڑ گئے ۔کہ خدا کے حکم اور اسکے نام پر عزیز متاع حیات کو قربان کردینا ہی بندے کی بندگی کا طرئہ امتیاز ہے ۔اور اس میں ہچکچاہٹ ،شش وپنج اور آنا کانی اپنے مالک و خالق کے حکم سے سر تابی ہے ۔جو مالک کے غضب کا سبب اور اسکی سزا کا باعث ہے ،خواہ اس میں کچھ تاخیر ہو اور بطور استدراج و ڈھیل کچھ وقتی نفع حاصل ہو ۔
یہ ہے قربانی کی وہ اصل روح جس کو یاد دلانے کے لئے اور جس کومستحضر و تازہ رکھنے کے لئے ہر عاقل و بالغ صاحب نصاب مسلمان مرد و عورت پر جانور ذبح کرنا فرض کیا گیا ہے ۔ جس کا حاصل و لب لباب یہ ہے کہ صرف جانور ذبح کرنا مقصود نہیں ،بلکہ اس یاد کو تازہ کرکے مالک کے حکم کی تعمیل و رضا کے خاطر حالات و تقاضوں کے مطابق اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لئے تیار رہنے کا حوصلہ پیدا کرنا مقصود ہے ۔جس کے لئے ہرمسلمان کو ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے ۔اس یاد کے ہرسال دہرائے جانے کا یہی راج ہے ۔
اگر ہم قربانی کی اس حقیقت کو تاریخ کے تابندہ نقوش میں دیکھنا چاہیں تو زندہ مثالیں ملیں گی ۔جس سے ہم موقع و محل کی مناسبت سے کامل رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں ۔ کارگاہ حیات میں ایسے بھی مواقع آتے ہیں کہ خدا کی رضا و دین اپنے جاہ و منصب تک کی قربانی دینی پڑتی ہے ۔اور جان کی قربانی کے بعد سب سے مشکل قربانی جاہ و انا اور جماعتی عصبیت ہی کی قربانی ہوتی ہے ۔اس سیاق میں ہم دیکھیں تو ہم کو نظر آئے گا کہ ایک قربانی وہ ہے جو سیدنا خالد بن ولیدؓ نے یرموق میں دی تھی ۔دوسری قربانی وہ ہے جو حضرت حسن بن علی ؓ نے حضرت معاویہؓ کے مقابلے میں امت کے انتشار کو ختم کرنے کے لئے دی تھی ۔اور وہ بھی ایک قربانی ہے ۔جو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنی زندگی کو بدل کر اور اپنے خاندان کے مفاد سے آنکھیں بند کرکے دی تھیں۔آج امت مسلمہ جن خطرات سے دوچار ہے ان میں تین قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے ،کیا اس کا ہم حوصلہ رکھتے ہیں ؟کہ جانور کے گردن پر چھری چلاتے وقت قربانی کی اصل روح کو تازہ کرکے اپنی ہر ایک خواہش پر چھری چلا دیں جس کے پورا کرنے میں دین و ملت کو نقصان پہنچتا ہو ۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قربانی کا لفظ کی تکرار باقی رہ گئی ہے ،اور قربانی کی اصل روح دن بدن غائب ہوتی جارہی ہے ۔اس وقت پوری امت اسلامیہ عمومااور امت ھندیہ خصوصا جس نازک دور سے گزر رہی ہے اس کے لئے بکرے کی گردن پر چھری چلاتے ہوئے ہم ہر وہ قربانی دینے کا عزم کریں جو اس وقت امت کو درکار ہے۔اگر ہم اپنی زندگی کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہم قربانی کا اصل روح اور حقیقت جس کا ڈھانچہ سراسر ایثاراور قربانی پر قائم ہوتاہے اسکا ایک ایک جوڑا ڈھیلا ہورہا ہے ۔
عیدالاضحی میں جانور اس لئے نہیں ذبح کئے جاتے کہ خدا کی زمین لالہ زار ہوجائے بلکہ یہ قربانی کسی بلند مقصد کے لئے کی جاتی ہے ۔مطمع نظر سامنے ہوتا ہے اور اس پاکیزہ مقصد سے اللہ کی اطاعت کو اپنے اندر جاری وساری کرناہوتاہے ۔جس کے ذریعہ نفس کو رذالت کے آلائشوں سے پاک کیا جاتا ہے ۔تاکہ پاکیزہ قدریں ابھریں ،دل میں فدا کاری اور جانثاری کا جذبہ پیدا ہو ،علم و ہنر میں ضرب کلیمانہ کی شان پیدا ہو ،اور وہ کام جو مشکل و دشوار معلوم ہوتے ہیں قربانی انکو آسان کردے ۔