عادل فراز

کسان تحریک کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے ۔زرعی قوانین کے خلاف کسانوں نے جس عزم و حوصلے کے ساتھ تحریک جاری رکھی وہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا اہم ورق ہے ۔اس تحریک کی کامیابی میں کسان رہنمائوں کا سیاسی شعور کار فرما رہا ،ورنہ منظم سرکاری پروپیگنڈے اور میڈیا ٹرائل کے سامنے میدان عمل میں استقلال کا مظاہرہ کرنا آسان نہیں تھا ۔اس ایک سال کے دوران کسانوں نے ہر طرح کی ذہنی و جسمانی اذیتیں برداشت کیں ۔ان کی وطن پرستی کو زیر سوال لایا گیا ۔انہیں غدار اور خالصتانی کہا گیا ۔وزیر اعظم نریندر مودی سے لیکر بی جے پی کے چھوٹے موٹے رضاکاروں اور گودی میڈیا کے ہر چینل نے ان کے مسائل کو سمجھنے کے بجائے ،وطن کے تئیں ان کی نیک نیتی پر سوال اٹھائے ۔تحریک کو دبانےاور کچلنے کے لیے ان کی راہ میں لوہے کی کیلیں بچھائی گئیں ۔ان کے دہلی میں داخلے کی راہیں بند کردی گئیں ۔سڑکوں کے بیچوں بیچ گہری کھائیاں کھود ی گئیں ۔ان کے احتجاج میں شرپسندوں کو داخل کرکے فساد کرانے کی کوشش کی گئی۔اور بھی نہ جانے کتنے ایسے حربے اختیار کیے گئے جس سے کسان تحریک کو ختم یا بدنام کیا جاسکے ،مگر کسانوں کے عزم و حوصلے کے آگے تمام سرکاری و غیر سرکاری پروپیگنڈوں کو شکست نصیب ہوئی ۔کسانوں نے یہ ثابت کردیا کہ بی جے پی کی انانیت اور وزیر اعظم کی مصلحت آمیز خاموشی کو صبروتحمل اور سیاسی شعور کے ساتھ ہرایا جاسکتاہے ۔

بالآخر19نومبر 2021کو گرونانک جینتی کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان کردیا۔اس کے بعد۲۹ نومبر کو وزیر زراعت نے زرعی قوانین منسوخی کا بل لوک سبھا میں پیش کرتے ہوئے قومی سطح پر اپنی ہار کو تسلیم کرلیا۔ظاہر ہے کہ وزیر اعظم نے گرونانک جینتی کے موقع پرزرعی قوانین کی واپسی کا اعلان سیاسی مفاد کے پیش نظر کیاتھاتاکہ ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کے غم و غصے کو کم کیا جاسکے۔مگر اس بار وزیر اعظم کا ہر پانسہ الٹا پڑ گیا ۔کسانوں نے زرعی قوانین کی واپسی کے فیصلے کو بہت سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ اس فیصلے کے بعد بے پناہ خوشی کا اظہار کیا گیا۔کیونکہ کسان گذشتہ ایک سال سے حکومت کے آمرانہ روّیے کو جھیلتے آرہے تھے ۔اس دوران سیکڑوں کسانوں کی جان چلی گئی ۔کھیتیاں تباہ ہوگئیں ۔گھر وں میں ویرانی پسری ہوئی ہے ۔منڈیوں میں فصلوں کو خریدار نہیں مل رہے ہیں ۔مہنگائی کے لیے کسان تحریک کو ذمہ دار ٹہرایا گیا ۔اور بھی نہ جانے کتنے ایسے مسائل ہیں جنہیں کسانوں نے ہنسی خوشی برداشت کیا کیونکہ وہ عزم محکم اور مضبوط لائحۂ عمل کے ساتھ میدان میں اترے تھے ۔گرونانک جینتی پر وزیر اعظم نے پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کو لبھانے کی بھر پورکوشش کی مگر کسان رہنمائوں نے تحریک جاری رکھنے کا انتباہ دیتے ہوئے بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی کو ناکام بنادیا ۔کسانوں نے دیگر مطالبات دہرائے جن پر وزیر اعظم نے ابھی تک کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیاہے۔ان مطالبات میں ’ایم ایس پی‘ سب سے اہم مطالبہ ہے ۔ظاہر ہے بغیر ’ایم ایس پی‘ کے کسانوں کی فصلیں کوڑیوں کے بھائو خریدی جاتی ہیں اس لیے یہ مطالبہ زرعی قوانین کے مقابلے میں کم نہیں سمجھا جاسکتا ۔کسانوں کی خون پسینے کی محنت کے ساتھ منڈیوں میں کس طرح کھلواڑ کیا گیا یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں ہے ۔کسان کو زرعی قوانین کی منسوخی سے زیادہ ’ایم ایس پی‘ کی ضرورت ہے تاکہ انہیں فصلوں کی صحیح قیمت مل سکے ۔


کسان تحریک کی کامیابی کا اہم راز کسان رہنمائوں کا سیاسی شعور اور کسانوں کا ثبات قدم ہے ۔انہوں نے ہر طرح کے سرکاری پروپیگنڈے کا عزم و حوصلے کے ساتھ مقابلہ کیا ۔میڈیا پر پوری طرح تکیہ نہیں کیا بلکہ اپنے منصوبے کے مطابق ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا ۔سوشل میڈیا کے ذریعہ کسان تحریک کے مقاصد اور ایجنڈے کو عام لوگوں تک پہونچایاگیا ۔مقامی زبانوں میں اخبارات جاری کیے ۔گائوں در گائوں زرعی قوانین کے سلسلے میں بیداری مہم چلائی گئی۔ الگ الگ علاقوں میں کسان مہا پنچایت کے ذریعہ کسان رہنمائوں نے قومی و علاقائی سطح پر بیباکی کے ساتھ اپنے مؤقف کا اظہار کیا ۔ہر کسی کو میڈیا کے سامنے بولنے کی چھوٹ نہیں دی گئی بلکہ کسان تنظیموں کی جانب سے معین کردہ افراد ہی میڈیا سے روبرو ہوئے ۔اس کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ میڈیا کے لاکھ ورغلانے اور اکسانے کے باوجود کسان مشتعل نہیں ہوئے اور اپنے مؤقف ڈٹے رہے ۔کسانوں نے اپنی لیڈرشپ پر بھرپور اعتماد کا مظاہرہ کیا اور اپنے اتحاد کو پارہ پارہ ہونے سے محفوظ رکھا ۔ورنہ یوم جمہوریہ کے موقع پر ٹریکٹر ریلی کے دوران لال قلعہ پر ہوئے تشدد کے بعد میڈیا سے روبروہونا آسان نہیں تھا ۔لال قلعہ پر پیش آئے تشدد آمیز واقعات کے بعد سرکار اور میڈیا نے کسانوں کا ایسا چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی جو انتہائی خطرناک تھا ۔مگر کسان رہنمائوں کی دور اندیشی اور سیاسی شعور نے ہر پروپیگنڈے کو ناکام کردیا ۔آج ملک کا کسان اپنے مطالبات پر قائم ہےاور اسے غدار کہنے والے افراد زرعی قوانین کی منسوخی کے اعلان کے بعد منہ دکھانے کےقابل نہیں رہے ۔اندھ بھکتی ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے جیساکہ زرعی قوانین کی منسوخی کے بعد ثابت ہوگیا ۔


زرعی قوانین کی منسوخی کا فیصلہ اقتدار سے محرومی کے خوف کو ظاہر کرتاہے ۔اس فیصلے کی متعدد وجوہات پر بحث کی جاسکتی ہے لیکن سردست اس فیصلے کی دو بڑی وجہیں ہیں ۔اول لکھیم پور کھیری میں بے جی پی رہنما کے ذریعہ کسانوں کا بہیمانہ قتل ہے ۔اس واقعہ نے قومی سطح پر بی جے پی کی سیاسی ساکھ کو متاثر کیا اورکسانوں کے خلاف ان کے تمام تر پروپیگنڈوں کو باطل کردیا ۔لکھیم پورواقعہ کے بعد حزب اختلاف کے سیاسی اتحاد نے بھی بی جے پی کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کے لیے مجبور کیا ۔خاص طورپر کانگریس نے جس طرح اس مسئلے کو اٹھایا اس سے بی جے پی بیک فُٹ پر آگئی ۔دوسری اہم وجہ اترپردیش میں آیندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات ہیں ۔مغربی اترپردیش کے عوام کہ جنہوں نے گذشتہ انتخابات میں بی جے پی کی نیّا کو پار لگانے میں اہم کردار ادا کیاتھا ،اس بار سرکار کے خلاف سڑکوں پر ہے ۔مغربی اترپردیش میں بی جے پی نے جاٹوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے کڑی محنت کی تھی ۔اس کا خمیازہ جاٹ رہنما اجیت چودھری کو شکست فاش کی صورت میں بھگتنا پڑا تھا ۔لیکن کسان تحریک نے ایک بار پھر جاٹوں کو متحد کردیا اور اجیت چودھری کے بیٹے جینت چودھری تیزی کے ساتھ سیاسی افق پر ابھر کر سامنے آئے ۔ساتھ ہی مظفر نگر فساد کے زخم ابھی ہرے تھے ۔جاٹ اور مسلمان دونوں برادریوں نے ان زخموں کا مداوا تلاش کرنے کی کوشش کی، جس نے بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔مظفر نگر کسان ریلی میں راکیش ٹکیت نے جس طرح ’ہر ہر مہادیو ‘ اور ’اللہ اکبر ‘ کے نعرے بلند کیے اس نے یوگی سرکار کی راتوں کی نیند اڑادی ۔ظاہر ہے بی جے پی کی سیاست کا سارا دارومدار فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت پر ہے ،اس لیے ہندوئوں اور مسلمانوں کے اتحاد کے باہمی نعرے اس کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں تھے ۔ اس کے بعد بی جے پی کو اترپردیش کا اقتدار ہاتھ سے جاتا ہوا نظر آیا۔کہاجاتاہے کہ ہندوستان کے اقتدار کا راستہ اترپردیش سے ہوکر گذرتاہے ۔لہذا وزیر اعظم کو صاف دکھائی دے رہا تھا کہ اترپردیش کی ہوا بدل رہی ہے ۔اس سے پہلے کہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت اس سلسلے میں کوئی اہم قدم اٹھاتی ،لکھیم پور میں کسانوں کے بہیمانہ قتل کا واقعہ ظہور پذیر ہوگیا ۔اس واقعہ نے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو دن میں تارے دکھلادیے اور زرعی قوانین کی منسوخی کے فیصلے پر مجبور کردیا ۔وزیر اعظم نے قوانین کی واپسی کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار بھی تحریک میں مرنے والے کسانوں کے اہل خاندان کے ساتھ اظہار ہمدری کی ضرورت محسوس نہیں کی ،جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ قوانین کی واپسی کا فیصلہ سیاسی مجبوری ہے ۔


بی جے پی کو یقین کامل تھا کہ زرعی قوانین کی واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی کسان تحریک ختم ہوجائے گی مگر ایسا نہیں ہوا ۔کسانوں نے دیگر مطالبات دہراتے ہوئے تحریک جار ی رکھنے کا اعلان کردیا ۔اگر یہ مطالبات تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی نہ کیے گئے ہوتے تو کسانوں کے لیے تحریک کو ختم کرنا ضروری ہوجاتا ۔مگر ’ایم ایس پی ‘ سمیت دیگر مطالبات اس تحریک کے بنیادی مطالبے ہیں۔ صرف زرعی قوانین کی واپسی کسانوں کے مسائل کا حل نہیں ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ کسانوں کی فصل کو اچھی قیمت پر خریدا جائے اور منڈیوں میں فصل خرید اور مناسب قیمت کی ادائیگی کی ضمانت دی جائے۔ورنہ زرعی قوانین کی واپسی سے صورتحال بدلنے والی نہیں ہے ۔امید کرتے ہیں کہ وزیر اعظم کسانوں کے دیگر مطالبات پر بھی غورکریں گے ۔ممکن ہے کہ کسانوں کے تمام مطالبات انتخابات سے قبل تسلیم کرلیے جائیں ۔لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہوگی کہ انتخابات جیتنے کے بعد وزیر اعظم اپنے وعدہ پر کھرا اتریں گے اور کسانوں کے ساتھ کیے گئے وعدے ’انتخابی جملہ ‘ ثابت نہیں ہوں گے ۔