متعصب میڈیا ملک کے امن واتحاداورسلامتی کے لئے ایک بڑاخطرہ :مولانا ارشدمدنی
متعصب میڈیاکے خلاف جمعیۃعلماء ہند کی پٹیشن پر سپریم کورٹ میں اہم سماعت 9مئی کو
نئی دہلی
ملک میں پرنٹ اورالکٹرانک میڈیاکا ایک بڑاحلقہ پچھلے کچھ عرصہ سے جس خطرناک روش پر عمل پیراہے، اس سے پورے ملک کے انصاف پسندلوگ نہ صرف اچھی طرح واقف ہیں بلکہ اس سے بڑی حدتک نالاں ومتنفربھی ہوچکے ہیں، تمام ترمطالبات اورگزارشات کے باوجود ایسے متعصب اورجانبدارمیڈیا پر لگام نہیں لگائی گئی ہے، حالانکہ بیشترموقعوں پرعدلیہ اس قبیل کے اخبارات اورنیوزچینلوں کے خلاف سخت تبصرے کرچکی ہے، لیکن یہ کچھ اس حدتک بے شرم اوربے خوف ہوچکے ہیں کہ انہوں نے اپنی یہ خطرناک روش اب تک ترک نہیں کی ہے، اس کولیکر جمعیۃعلماء ہند نے سپریم کورٹ میں تمام ترثبوت وشواہد کے ساتھ جو پٹیشن6 اپریل 2020کوداخل کی تھی اس پر آئندہ 9 مئی کو دسویں اہم سماعت ہونے والی ہے،جمعیۃعلماء ہند کی جانب سے ڈیڑھ سوسے زیادہ ٹی وی چینلوں اوراخبارات کے تراشے اوراہم تفصیلات پٹیشن کے ساتھ عدالت میں داخل کی گئی ہیں، جن میں انڈیا ٹی وی، زی نیوز، نیشن نیوز، ری پبلک بھارت، ری پبلک ٹی وی، شدرشن نیوزاورنیوز18وغیرہ جیسے بدنام زمانہ چینل بھی شامل ہیں، جنہوں نے صحافتی اصولوں واخلاق کو تارتار کرتے ہوئے مسلمانوں کی دلآزاری کرتے رہے ہیں اوراپنی اس حرکتوں سے انہوں نے ملک کے امن واتحاد اورسلامتی کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسرنہیں اٹھارکھی ہے،اس پر اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے صدرجمعیۃعلما ء ہند مولاناارشدمدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہندیہ قانونی لڑائی ہندوومسلم کی بنیادپر نہیں لڑرہی ہے بلکہ اس کی یہ لڑائی ملک اورقومی یکجہتی کے لئے ہے جو ہمارے آئین کی بنیادی روح ہے۔ جس کو میڈیا اپنی غیرذمہ دارانہ رپورٹنگ اوراشتعال انگیزی سے مسلسل ملک کے ماحول کوخراب کررہی ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ٹی وی چینل جو نفرت انگیزموادپروستے ہیں اورجس طرح کی اشتعال انگیزبحث کرتے ہیں اس سے ملک کی فرقہ وارانہ فضااوراس کا امن واتحادخطرہ میں پڑجاتاہے ، ملک کی اکثریت ایک مخصوص قوم کو اپنے دشمن کے طورپر دیکھنے لگتی ہے،باہمی ٹکڑاؤ، انتشار، مذہبی کشیدگی اورفسادات کے خطرات بڑھ جاتے ہیں مولانا مدنی نے کہا کہ ہندوستان جیسے سیکولرملک میں ایک سنگین جرم ہے،بلکہ سچائی یہ ہے کہ اپنی شرانگیز اورجانبدارانہ رپورٹنگ سے میڈیا کے اس حلقے نے ملک کے امن واتحاداورسلامتی کوزبردست نقصان پہنچایاہے، اس کے لئے ان ٹی وی چینلوں کو ہرگزہرگزمعاف نہیں کیاجاسکتاہے، مولانامدنی نے یہ بھی کہاکہ ایسانہیں ہے کہ ان کے لئے کوئی ضابطہ اورقانون نہیں ہے، ضابطہ موجودہے جس کا حوالہ عدالت میں اس سے پہلے والی سماعت پر دیدیاتھا، لیکن اس کے بعد بھی یہ ٹی وی چینل ضابطوں کی صریح خلاف ورزی کرکے اشتعال انگیزی پھیلاکر مسلمانوں کی دانستہ کردارکشی کررہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ انہیں بعض انتہائی طاقتورلوگوں کی شہ ملی ہوئی ہے، اورشاید اسی لئے انہیں نہ توملک کے آئین وقانون کی کوئی پرواہے اورنہ ہی ان ضابطوں کی جو ان کے لئے خاص طورسے بنائے گئے ہیں،انہوں نے مزیدکہاکہ ملک کے آئین نے جوہمیں اختیارات دیئے ہیں اس طرح کے معاملات میں ہم اپنے انہی اختیارات کااستعمال کرتے ہوئے عدالت کارخ کرتے ہیں جہاں سے ہمیں انصاف بھی ملتاہے۔ہمیں یقین ہے کہ اس معاملہ میں بھی عدالت ایک ایسافیصلہ دیگی جس سے ملک کے بے لگام میڈیاکے خطرناک عزائم کوروکنے میں مدملے گی اورملک کو اشتعال انگیزی اورمذہبی شدت پسندی سے نجات حاسل کرنے میں مددملے گی۔قابل ذکرہے کہ 2/ستمبر2021کودوران سماعت ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ کے جسٹس ٹی وی نلاؤڑے اور جسٹس ایم جی سیولکر ن کی جانب سے دیا گیافیصلہ عدالت میں داخل کیا تھا جس میں لکھا ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بڑا واویلا مچایا گیا تھا کہ تبلیغی مرکز سے ہندوستان میں کرونا پھیلا ہے اور اس کے لیئے تبلیغی جماعت کے لوگوں کو بلی کا بکرا بنایا گیا۔ میڈیا نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے فیک نیوز چلائی اورعوام میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی وجہ سے کرونا پھیلا جبکہ اس کی حقیقت عوام کے سامنے آچکی ہے لہذا ایسے نیوز چینلوں اور اخبارات کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے۔ اسی درمیان پریس کونسل آف انڈیا کی جانب سے عدالت میں چھ صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی گئی تھی اور عدالت کو بتایا گیا کہ ابتک 49 پرنٹ میڈیا کے خلاف شکایت موصول ہونے کے بعد پریس کونسل پروسیجر فورا انکوائری ریگولیشن 1979 کے تحت کارروائی کی جارہی ہے۔تبلیغی مرکز کو لیکر کمیونل رپورٹ کے کرنے والے اخبارات جن کے خلاف شکایت موصول ہوئی ہیں دینک جاگرن، لوک مت،دینک بھاسکر، ٹائمز آف انڈیا، نو بھارت، دی ہندو، دوییا بھاسکر، وجئے کرناٹک،دی ٹیلی گراف، اسٹار آف میسور، ممبئی سماچار، تہلکا میگزین، انڈیا ٹودے و دیگر شامل ہیں۔سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول اور ان کے معاون وکلاء پیش ہونگے، اس پٹیشن میں جمعیۃعلماء قانونی امدادکمیٹی کے سربراہ گلزاراحمد اعظمی مدعی ہے۔