دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں انصاف کی جنگ لڑرہا ایک ڈاکٹر
عاقل حسین،مدھوبنی بہار
دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندستان میں ایک ڈاکٹر انصاف کی جنگ لڑرہا ہے۔ اسے ہندوستانی عدلیہ پر مکمل یقین ہے کہ انہیں انصاف ضرور ملے گا۔ ملک کے ہر فرد کو ملک کی عدلیہ پر مکمل یقین ہونا بھی چاہئے مگر گذشتہ 6؍ سالوں سے ملک کا قانونی نظام دم توڑتا نظر آرہا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو آئے دن صحافی، سماجی خدمت گزار اور ڈاکٹروں پر ملک میں بدامنی پھیلانے کے تحت راسوکا، ملک غداری اور دہشت گردوں پر نافذ ہونے والی دفعات یو اے پی اے جیسے قانون کے تحت کارروائی کیوں کی جارہی ہے یہ روش ملک کی جمہوریت کے لئے بدقسمتی کی بات ہے۔ ہم اترپردیش کے گورکھپور بی آرڈی میڈیکل کالج کے معطل ماہر اطفال امراض ڈاکٹر کفیل خان کی بات کریں گے جو ان دنوں متھورا کی جیل میں مہینوں سے بند ہیں۔ ان کی خطا محض اتنی ہے کہ انہوںنے جموری نظام والے ملک میں اپنی آواز بلند کی تھی اور جمہوریت سے ملے حقوق واختیارات کی بنیاد پر ملک میں ہر فرد کو اپنے حقوق کے ساتھ جینے کی بات کہی تھی۔ ان حقوق کے لئے ہر شخص اپنی آواز اٹھاسکتا ہے۔ 12؍ دسمبر 2019؍ کو علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ایک اجلاس تھا۔ ڈاکٹر کفیل خان نے اس اجلاس میں خطاب کیا۔ جمہوری ملک میں رہنے والے ہر فرد کو اپنی آواز بلند کرنے کا حق بھی ہے تبھی پوری دنیا ہندستان کی جمہوریت کی ستائش کرتی ہے مگر گذشتہ کچھ سالوں سے ہندوستانی جمہوری ڈھانچہ پربر سر اقتدار پارٹی حملے کررہی ہے۔ اسی کے مارے ہوئے ڈاکٹر کفیل خان بھی ہیں۔ 12؍ دسمبر 2019؍ کے اجلاس میں شرکت کے سلسلے میں 13؍ دسمبر 2019؍ کو ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف علی گڈھ کے سول لائنس پولیس اسٹیشن میں آئی پی سی دفعہ 153؍اے کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔ درج ایف آئی آر میں ڈاکٹر کفیل خان پر الزام لگایا گیا تھا کہ طالب علموں کو خطاب کرنے کے دوران ڈاکٹر خان نے بغیر نام لئے کہاتھا کہ ’موٹا بھائی سبھی کو ہندو یا مسلم بننا سکھا رہے ہیں مگر انسان بننا نہیں‘۔ انہوںنے آگے کہاتھا کہ جب سے آر ایس ایس وجود میں آیا ہے انہیں آئین پر بھروسہ نہیں رہ گیا ہے اور آر ایس ایس کے کیمپ میں داڑھی والوں کو دہشت گرد بتاکر ذہن سازی کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر خان نے کہاتھا کہ سی اے اے مسلمانو ں کو دوسرے درجے کا شہری بناتا ہے اور این آرسی نافذ ہونے کے ساتھ ہی لوگوں کو پریشان کیا جائے گا۔ ڈاکٹر کفیل خان کی باتوں میں کہیں نہ کہیں سچائی بھی ضرور ہے! ملک میں مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ اگر ٹارگٹ نہیں بنایا جارہا ہے تو پھر کفیل خان پر راسوکا ودیگر سخت قوانین کے تحت کارروائی نہیں ہوتی! حیرت کی بات یہ ہے کہ درج ایف آئی آر میں ڈاکٹر خان پرامن وامان خراب کرنے کی کوشش بتائی گئی ہے۔ جبکہ اس اجلاس میں ڈاکٹر کفیل خان کے ساتھ سماجی خدمت گزار یوگندر یادو بھی شامل تھے۔ یوگندر یادو نے ڈاکٹر کفیل خان پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد بتایا تھا اور یوگندر نے کہاتھا کہ ڈاکٹر کفیل خان نے کچھ بھی ایسا نہیں کہاتھا جس سے ملک میں بدامنی پھیلے۔ ان پر غلط الزامات لگائے گئے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ شہریت ترمیم قانون کے خلاف ملک کی مختلف ریاستوں، اضلاع یہاں تک گائوں کی سڑکوں پر بھی اجلاس ہوئے اور وہ مہینوں تک چلے۔ ان اجلاس میں ہر شخص نے جمہوری حقوق کے تحت مرکزی حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم اور مرکزی وزیر داخلہ تک کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ ڈاکٹر کفیل خان نے پٹنہ کی سبزی باغ سمیت مختلف مقامات پر اجلاس سے خطاب کیا تھا لیکن یوپی میں ہی یوگی حکومت کے نشانے پر ڈاکٹر کفیل خان ہی کیوں؟ یوگی حکومت کی ایس ٹی ایف ٹیم ڈاکٹر کفیل خان کو 29؍ جنوری 2020؍ کو ممبئی ایئرپورٹ سے گرفتار کرلیتی ہے۔ مہاراشٹر میں گرفتاری کے بعد 30؍ جنوری 2020؍ کو کفیل خان بولتے رہے کہ بی آرڈی میڈیکل کالج میں بچوں کی جان گئی تھی اس معاملے میں انہیں کلین چٹ مل گئی ہے اسی لئے انہیں دوبارہ پھنسایا جارہا ہے۔ انہوںنے مہاراشٹر حکومت سے استدعا کی تھی کہ انہیں یوپی پولس پر بھروسہ نہیں ہے اس لئے انہیں مہاراشٹر میں ہی رکھا جائے لیکن انہیں یوپی پولس یوپی لاکر جیل میں بند کردیتی ہے۔ عدالت میں ضمانت کے لئے سماعت ہوتی ہے اور ڈاکٹر کفیل خان کو 10؍ فروری 2020؍ کو سی جے ایم عدالت سے ضمانت بھی مل جاتی ہے مگر ضمانت کے باوجود انہیں پولس نہیں چھوڑتی اور 3؍ دن بعد ڈاکٹر کفیل خان پر این ایس اے یعنی راسوکا لگادیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ڈاکٹر کفیل خان ضمانت ملنے کے بعد بھی جیل سے رہا نہیں ہوپاتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں‘ کفیل خان پر لگے راسوکا کو 12؍ مئی 2020؍ کو 3؍ مہینہ کے لئے بڑھادیا جاتا ہے۔ یعنی لوگوں کی زندگیاں بچانے والے ڈاکٹر سے حکومت ڈر رہی ہے کہ کہیں خستہ حال صحت انتظامات کی قلعی نہ کھول دیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1980؍ میں بنے قانون راسوکا کا استعمال سرکار کررہی ہے۔ اس قانون میں حکومت کسی کو بھی اپنے پاور کا استعمال کرتے ہوئے 1؍ سال تک جیل میں رکھ سکتی ہے۔ اس کا استعمال ڈاکٹر کفیل خان پر لگاتار کیا جارہا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہےکہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دہلی میں دھرنا کے دوران کپل گجر نامی شخص گولی چلادیتا ہے لیکن اسے بھی عدالت سے ضمانت مل جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں‘ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سی اے اے کے خلاف دھرنا دے رہے لوگوں کو ’پاکستانی زبان بولنے والا‘ کہا۔ مودی حکومت کے وزیر کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر وغیرہم کے ذریعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف کیسے کیسے شرمناک اور توہین آمیز بیانات دیئے گئے جو ملک کے کسی فرد سے مخفی نہیں ہے۔ دہلی میں جو فسادات ہوئے اس میں بھی ان نیتائوں کا کیا کردار تھا اسے بھی پورا ملک جانتا ہے۔ اس کے باوجود بھاجپا نیتا کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور ابھے ورما کے خلاف دہلی پولس ثبوت تک جمع نہیں کرسکی مگر ایک ڈاکٹر کے خلاف یوپی پولس کو ثبوت مل جاتا ہے اور ان پر کارروائی کردی جاتی ہے۔ وہ بھی ایسی کارروائی کہ اگر ضمانت بھی مل جائے تو راسوکا لگادو‘ یہ ملک کا کیسا دوہرا قانون ہے؟ ہم اگر بات کریں گورکھپور بی آرڈی میڈیکل کالج میں 10؍ اگست 2017؍ کی تو 10؍ اگست کی شب آکسیجن کی کمی سے تقریباً 34؍ بچوں کی موت ہوجاتی ہے۔ اس میں بھی ڈاکٹر کفیل خان نے ایک ذمہ دار ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ آکسیجن ختم ہونے کے بعد انہوںنے باہر سے آکسیجن لاکر بچو ںکی جان بچانے کی پوری کوشش کی تھی مگر مبینہ طور پر ڈاکٹر کفیل خان کو بچوں کی موت کا ذمہ ٹھہراتے ہوئے یوگی حکومت نے کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ جبکہ اس وقت اسپتال کو آکسیجن سپلائی کرنے والی فرم پشپا سیلس کے مالک نے خود یہ مانا تھا کہ ادائیگی میں غیرضروری تاخیر کے سبب انہوںنے مجبور ہوکر سپلائی بند کردی تھی۔ مگر اس وقت انتظامیہ اور حکومت نے آکسیجن کی کمی سے انکار کرتےہوئے کہاتھا کہ میڈکل کالج میں جمبو سلنڈر دستیاب تھا اس لئے آکسیجن کی کمی کی بات درست نہیں ہے۔ مبینہ طور پر بچوں کی اموات کے معاملے میں 2؍ ستمبر 2017؍ کو ڈاکٹر کفیل خان کو جیل بھیج دیا گیا اور تقریباً 8؍ مہینے بعد ڈاکٹر کفیل خان کو 25؍ اپریل 2018؍ کو ضمانت ملی تھی۔
ڈاکٹر کفیل خان ہمیشہ اپنی طبی خدمات اور بہتر سماجی کاموں کے سبب سرخیوں میں رہے ہیں۔ بہار باشندگان کو یاد ہوگا جب مظفرپور میں دماغی بخار سے بچوں کی اموات ہورہی تھی تب ڈاکٹر کفیل نے مظفرپور پہنچ کر گائوں گائوں کیمپ کرکے بچوں کا علاج کیا تھا اور لوگوں کو دماغی بخار سے بچائو کی جانکاری دی تھی۔ ڈاکٹر کفیل خان نے صحت انتظامات پر سوال بھی اٹھایا تھا۔ اس دوران ڈاکٹر کفیل خان اپنی اہلیہ، ماں اور بچی کو چھوڑ کر مظفر پور میں بچوں کا علاج کررہے تھے۔ اس کے بعد 2019؍ میں بہار میں سیلاب آیا اس وقت بھی مہاماری کی روک تھام کے لئے ڈاکٹر کفیل نے بہار کے مختلف اضلاع میں میڈیکل کیمپ لگاکر لوگوں کا علاج کیا۔ اتنا ہی نہیں‘ پٹنہ کی گلیوں میں گندے پانی سے گزر کر غریبوں کو صحت خدمات فراہم کی تھی۔ ڈاکٹر کفیل خان ملک کی مختلف ریاستوں کے گائوں میں گھوم گھوم کر لوگوں کا علاج ومعالجہ کرتے رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں‘ ڈاکٹر کفیل خان اپنی گرفتاری سے 3؍ دن قبل 27؍ جنوری 2020؍ کو فیس بک کے توسط سے مرکزی حکومت سے کورونا مہاماری کے تئیں درخواست کی تھی۔ اگر مرکزی حکومت ڈاکٹر کفیل خان کی باتوں پر توجہ دیتی تو ہندستان کرونا کے معاملے میں تیسرے نمبر پر آج نہیں ہوتا۔ہم ڈاکٹر کفیل خان کی خدمات کے جذبے کو سلام کرتے ہیں۔ متھورا جیل میں بند رہنے کے باوجود اُترپردیش حکومت کے معطل ماہر امراض اطفال ڈاکٹر کفیل خان نے 19؍ مارچ 2020؍ کو وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا تھا جس میں کورونا جیسی مہاماری سے ملک کے عوام کو بچانے کے لئے کورونا اسٹیج تھری کے خلاف روڈ میپ کا ذکر کیا تھا اس کے بعد بھی مرکزی حکومت کی آنکھ نہیں کھلی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کورونا کے مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ متھورا جیل میں بند کفیل خان نے جیل انتظامات پر کئی سوال اٹھائے ہیں۔ کورونا مہاماری کے بیچ 500؍ قیدی والے جیل میں 1750؍ قیدیوں کو رکھا جارہا ہے۔ ڈاکٹر کفیل خان کی اہلیہ ڈاکٹر شبستا خان کی مانیں تو ڈاکٹر کفیل خان کے خلاف لگاتار سازشیں کی جارہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ضمانت ملنے کے بعد بھی ان پر راسوکا لگایا گیا تاکہ وہ غریبوں کی مدد نہ کریں۔ ڈاکٹر کفیل کا ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے جس میں ڈاکٹر کفیل بول رہے ہیں کہ وہ کوئی بزدل نہیں جو خودکشی کریںگے۔ ان کے گھر والوں کو یوپی پولس سے خوف ہے کہ کہیں یوپی پولس ان کا انکائونٹر نہ کردے مگر وہ بھاگنے والوں میں سے نہیں ہیں کہ ان کا انکائونٹر کردیا جائے گا۔ ویسے حکومت اور یوپی پولس سےان کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ بہار اور یوپی سمیت ملک کے مختلف علاقے میں ڈاکٹر کفیل خان کی رہائی کے لئے سوشل میڈیا پر آواز بلند ہونے لگی ہے۔ کئی جگہ پر رہائی کے لئے سڑکوں پر جلوس بھی نکالے جارہے ہیں۔ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ جب سنگین معاملوں کے ملزمین کو ضمانت مل سکتی ہے تو پھر ڈاکٹر کفیل خان کو کیوں نہیں۔ انھوں نے سیاسی بیانات ہی تو دیئے تھے۔ انہیں ضمانت کیوں نہیں مل سکتی؟ جو غریبوں کی مدد کرنے کے لئے اپنی چھوٹی بچی، اہلیہ اور بوڑھی ماں کو چھوڑ کر مہینوں ایک ریاست سے دوسری ریاست کیمپ لگاکر علاج کرتے رہے ہیں۔ ویسا شخص کیسے ملک میں بدامنی پھیلاسکتا ہے؟ ان کے خلاف ایک سازش کے تحت راسوکا کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔
جو بھی ہو‘ ملک کو کورونا کے مشکل وقت میں ڈاکٹر کفیل خان کی بہت ضرورت ہے۔ اگر کفیل خان جیل سے باہر ہوتے تو وہ اپنے گھر، بچوں کو چھوڑ کر کہیں نہ کہیں کورونا مریض کی خدمت کرتے نظر آتے۔ آج اگر ڈاکٹر کفیل خان جیسے شخص کو ضمانت نہیں مل رہی ہے تو کہیں نہ کہیں ملک کی جمہوریت، انصاف اور عدلیہ نظام سے لوگوں کا اعتماد ٹوٹتا جارہا ہے جس پر ہمیں سنجیدگی کے ساتھ سوچنے اور ایسی متعصب حکومت کے خلاف احتجاجی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔