سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے مملکت کی جانب سے امریکا کو سرمایہ کاری نکالنے کی دھمکی دینے کی تردید کی ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ البتہ سعودی عرب نے امریکا کو اس قانون کے بل کا خطرہ ضرور واضح کر دیا ہے جس کی رُو سے 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے متاثرین مملکت کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کرسکیں گے۔ الجبیر کے مطابق اس سے “سرمایہ کاروں کے اعتماد پر کاری ضرب لگے گی”۔

نیویارک میں فیڈرل کورٹ کے ایک جج نے 11 ستمبر کے حملوں کے ہزاروں متاثرین اور اربوں ڈالروں کا نقصان اٹھانے والی انشورنس کمپنیوں کی جانب سے سعودی عرب کے خلاف ہرجانے کے مطالبے کا کیس خارج کردیا تھا۔ امریکی اخبار “فلاڈلفیا انکوائرر” کے مطابق 2005 میں اس کیس کو جج رچرڈ کیسی نے دیکھا تھا تاہم ان کو مملکت کے خلاف کیس جاری رکھنے کے لیے کوئی بنیادی پہلو نہیں مل سکا۔

” ٹوئیٹر” پر سعودی وزارت خارجہ کے سرکاری اکاؤنٹ پر عادل الجبیر کی جنیوا میں عالمی ذرائع ابلاغ کے متعدد اداروں سے گفتگو کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں سعودی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ “امریکی قانون کے بل سے سفارتی مامونیت ختم ہوجائے گی اور یہ چیز بین الاقوامی قانون کو جنگل کے قانون میں بدل دے گی”۔

عادل الجبیر نے باور کرایا کہ امریکی انتظامیہ نے قانون کے بل کی مخالفت کی ہے اور دنیا کا ہر ملک اس کی مخالفت ہی کرے گا۔

سعودی وزیر خارجہ کے مطابق مملکت مالیاتی پالیسیوں بالخصوص توانائی سے متعلق پالیسیوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرتی۔ انہوں نے کہا کہ “جب ہم سرمایہ کاری کرتے ہیں تو ایسا بطور سرمایہ کار کرتے ہیں اور جب ہم تیل فروخت کرتے ہیں تو بطور تاجر کرتے ہیں”۔

واضح رہے کہ واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے نے بتایا تھا کہ 11 ستمبر کے حملوں کی تحقیقات کرنے والے امریکی کمیشن نے تصدیق کی تھی کہ سعودی عرب کو القاعدہ کی سپورٹ یا مالی معاونت کے سلسلے میں مورود الزام ٹھہرانے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کمیشن کا کہنا تھا کہ “ہمیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس کے تحت سعودی حکومت یا اس کے سینئر ذمہ داران کو القاعدہ کی مالی معاونت کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکے”۔