عنوان عجیب ضرور ہے مگر عنوان کو پڑھ کر آپ حیران و پریشان کس لئے۔؟ کیا آپ کو اپنا دستر خوان خطرے میں نظر آنے لگا۔؟ گھبرائیے نہیں۔ دیمک آپ کے دستر خوان پر قطعی غاصبانہ قبضہ نہیں کرنے والی۔ مانا کہ وہ اشرف المخلوقات نہیں مگر اس کے باوجود اس کے کچھ اصول ہیں جن سے انحراف اس کی فطرت نہیں۔ چونکہ خالق دو جہاں نے دیمک کو ترقی پذیر عقل نہ عطا کرکے محدود عقل دی ہے۔ اس لئے وہ آج بھی اپنے ازلی اصول پر کاربند ہے۔ جب کوئی اس کے لئے دسترخوان سجا دے تو وہ اس کا استعمال کرے ورنہ نہیں۔ جبکہ حضرت انسان اپنی ترقی پذیر عقل کے زعم میں روز بروز ایسے ایسے کارنامے انجام دے رہا ہے کہ شیطان بھی حیران و پریشان ہے۔

بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ اسی کو بات کا بتنگڑ کہتے ہیں۔ اور یہ بھی انسانوں کا فن ہے۔ خیر ہر ذی روح جو زمین پر یا زیر زمیں سانس لے رہا ہے اسے غذا کی ضرورت ہر دور میں تھی، ہے، رہے گی۔ غذا کس طرح حاصل کی جائے اور اسے کس طرح استعمال کیا جائے اس کے انداز الگ الگ ہیں ترقی یافتہ سماج میں عام طور پر لوگ چلتے پھرتے کھانا پسند کرتے ہیں۔ ترقی پذیر سماج کھڑے ہوکر کھانے کا لطف اٹھانا چاہتا ہے۔ یعنی بغیر کسی قید و بند اور اصول و ضابطہ کے۔ کیونکہ وہ اپنے کو پیدائشی آزاد مانتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے جانور پیدائش کے بعد تمام رشتوں کو بھول کر صرف جانور رہ جاتا ہے۔ اسی طرح ترقی یافتہ ہوکر انسان تمام اخلاقی حدبندیوں کو بھول جاتا ہے۔ مگر دنیا مہذب انسانوں سے خالی نہیں ہے ایسے انسان تمام رشتوں کا احترام کرنے کے ساتھ غذا کے ساتھ بھی کوئی بدسلوکی نہیں کرتے۔ وہ طعام تناول کرنے سے پہلے تمام قواعد و ضوابط کا خیال رکھتے ہی۔ کھانے کے احترام میں دسترخوان کا اہتمام کرتے ہیں۔ خاص طور پر جب کسی کو طعام پر مدعو کرتے ہیں تو خصوصیت کے ساتھ دستر خوان کا اہتمام کرتے ہیں۔

مگر…….سوال یہ ہے کہ …….دیمک کے لئے دسترخوان کا اہتمام کون اور کیوں کرے۔؟ یہاں پر میں آپ کو اس بات کی اطلاع بھی دینا چاہوں گا کہ دیمک کی نسل میں بھی باادب، بے ادب، ادب نواز، جاہل اور کاہل ہر طبقہ ملتا ہے۔ ہر طبقہ اپنے اپنے طور پر اپنے دسترخوان سے غذا حاصل کرتا ہے۔ ایک طبقہ جو جنگل کا باسی ہے پیڑ کے تنوں کو اپنا دسترخوان مان کر اس سے غذا حاصل کرتا ہے۔ شہروں میں رہنے والا قبیلہ کپڑوں اور دوسری اشیاء کے دسترخوان سے اپنے پیٹ کی آگ کو سرد کرتا ہے۔ ان سب سے اہم قبیلہ وہ ہے جو ادب نواز ہے وہ صرف اور صرف کاغذ پر درج تحریر کو ہی چٹ کرتا ہے۔ اللہ رزاق ہے اس نے سبھی کور زق فراہم کرانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ پتھر کے کیڑے کو غذا دینے والے مالک کون و مکاں کے لئے دیمک کی غذا کے اسباب پیدا کرنا معمولی بات ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس ادب نواز اور اپنے کو دانش وروں کی صف میں شمار کرنے والی دیمک کے اس قبیلہ کیلئے ایسے اسباب پیدا کر دئے ہیں کہ اسے کاغذ پر درج تحریریں اس وافر مقدار میں حاصل ہو جاتی ہیں کہ بھوک کا احساس تک باقی نہیں رہتا۔ ادب نواز دیمک کے لئے ادب دوست ادیب و شاعر ہی یہ دسترخوان مہیا کراتے ہیں۔ کبھی اخبارات کی فائل کی شکل میں کبھی قلمی مسودات کی شکل میں اور سب سے زیادہ تو طبع شدہ کتابوں اور رسائل کی شکل میں جن کو پڑھنے والے قاری نصیب نہیں ہوتے۔ جس کی وجہ سے اردوکی کتاب کا ایک ایڈیشن دس سال میں بھی ختم نہیں ہوتا۔ اس طرح یہ دیمک کا دستر خوان بن جاتی ہے۔

لکھنؤ کے ایک مشہور ادیب کی ایک کتاب جو صرف چار سو کی تعداد میں شائع ہوئی تھی تمام تر کوششوں کے بعد بھی سو جلدوں سے زیادہ فروخت نہ ہو سکی۔ باقی جلدیں گھر پر رکھی تھیں اکثر ان سے بات ہوتی بڑی مایوسی سے فرماتے فروخت نہیں ہو رہی ہے۔ کچھ عرصہ بعد ایک دن انھوں نے اطلاع دی کہ کتاب کی چند جلدیں ہی بچی ہیں اگر ضرورت ہو تو لے لو ورنہ پھر نہ ملے گیں۔ اس پر میں نے حیرت سے انھیں دیکھا۔ تو انھوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا کتابیں دیمک کا دسترخوان بن چکی ہیں۔ کچھ بچی ہیں ان کو الگ کر لیا ہے تا کہ وہ دیمک کی ادب نوازی سے محفوظ رہ سکیں۔ 

اب تو آپ کو یقین آگیا ہوگا کہ ادب کی دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنی کتابوں کو دیمک کا دسترخوان بناناپسند کر لیتے ہیں مگر اپنی کتابوں کے لئے قاری نہیں بنا پاتے۔ بات یہیں پر ختم ہوجائے تو بھی غنیمت مگر اردو کا مسئلہ اس سے آگے کا ہے جو ایک معتبر صحافی اور ادیب کے اس جملہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ”میاں فکر نہ کرو یہ اردو کی کتابیں ہیں انھیں دیمک بھی نہیں کھائے گی۔“

اب اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ہم، آپ اور وہ تمام حضرات جو اردو سے محبت کرتے ہیں اپنے اوپر یہ فرض کر لیں کہ وہ اردو کے قاری تیار کریں گے اور پھر ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہیں گے کہ یہ اردو کی کتابیں ہیں دیمک کی ان تک رسائی ممکن نہیں۔

منظور پروانہؔ

چکن شاپی، نظیر آباد، لکھنؤ۔226018

موبائل:9452482159

Email: manzoorparwana7673@gmail.com