امریکی صدر براک اوباما نے الریاض میں خلیج تعاون کونسل ( جی سی سی) کے رکن ممالک کے سربراہوں سے ملاقات کی اور ان سے ایران، یمن اور شام میں جاری بحرانوں، القاعدہ اور داعش کے خلاف جنگ سمیت علاقائی سلامتی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
امریکی صدر نے گذشتہ سال کیمپ ڈیوڈ میں جی سی سی کے سربراہ اجلاس کی میزبانی کی تھی اور اس میں انھوں نے بڑی طاقتوں کے ایران کے ساتھ طے شدہ جوہری معاہدے سے متعلق خلیجی عرب لیڈروں کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی تھی۔
الریاض میں اجلاس کے آغاز سے قبل امریکی صدر اور دوسرے خلیجی لیڈروں نے مسکراتے چہروں کے ساتھ تصاویر بنوائی ہیں مگر اس دوران لب کشائی نہیں کی۔امریکی وزیر دفاع آشٹن کارٹر ،وزیر خارجہ جان کیری ،صدر اوباما کی قومی سلامتی کی مشیر سوسان رائس اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینان بھی اجلاس میں شریک ہیں۔
قبل ازیں وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ امریکا،جی سی سی سربراہ اجلاس کے تین سیشن ہوں گے۔ایک میں علاقائی استحکام سے متعلق امور پر غور کیا جائے گا،دوسرے میں القاعدہ اور داعش کے جنگجوؤں کو شکست دینے سمیت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوششوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔تیسرے سیشن میں ایران اور اس کی خارجہ سیاست اور سرگرمیاں موضوع بحث ہوں گی۔
سعودی عرب اور دوسرے خلیجی عرب ممالک ایران کو خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والی قوت کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور وہ امریکا کے اس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات پر نالاں ہیں۔خلیجی ممالک ایران کی عراق ،بحرین ،شام اور یمن میں فوجی مداخلت کے بارے میں بھی اپنی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شام میں امریکا کی قیادت میں داعش کے خلاف فضائی مہم میں شریک ہیں اور سعودی عرب نے کچھ عرصہ قبل اس سخت گیر جنگجو گروپ کے خلاف کارروائی کے لیے اپنے زمینی دستے بھیجنے کی بھی پیش کش کی تھی مگر یہ ممالک چاہتے ہیں کہ امریکا شامی صدر بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے دباؤ ڈالے اور وہ ان کی حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے کسی عمل کا حصہ نہ بنے۔
جی سی سی کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے بعد امریکی صدر اپنے وفد کے ہمراہ اپنے دورے کے اگلے مرحلے میں جمعرات کی شب الریاض سے برطانیہ اور جرمنی روانہ ہوجائیں گے۔