میرا پیارا ہندوستان، نرالی ہے جس کی شان، امن و آشتی کا گہوارہ جو پورے عالم میں مشہور تھا۔ مختلف عقیدوں، مذاہب و مسلک کے پھولوں کا یہ گلدستہ دل کو سرور اور نظروں کو نور بخشتا تھا۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ یہ ملک سونے کی چڑیا تھی اور ہر طرح آسودہ حد یہ ہے کہ مثال کے طور پر لوگ کہتے تھے کہ اس ملک میں دودھ کی ندیاں بہتی تھیں۔ رعایا خوش حال اور حکمراں بھی انصاف پسند۔ اپنے اس ملک کو کسی ظالم کی ایسی نظر لگی کہ کایا پلٹ ہو گئی۔ ایک زمانے میں کچھ انگریز تاجر اس ملک میں آئے اور یہاں بس گئے۔ ہندوستانیوں نے اپنی فراخ دلی کا ثبوت دیا۔ دل کھول کر مہمانوں کا استقبال کیا مگر یہ مہمان اتنے بڑے بے ایمان نکلے کہ انھوں نے امن و آشتی کی زمین میں نفرت کا وہ بیج بو یا جس سے ”پھوٹ“ کا درخت نکلا اور انگریزوں نے ”پھوٹ ڈالو اور راج کرو“ کی پالیسی اختیار کر اپنی فوجی طاقت بڑھانا شروع کی۔ آپس میں غلط فہمی پیدا کر لڑایا۔ ایک کی مدد کی دوسرے کو شکست دلائی پھر دوسرے کو بھی زیر کر اس پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح دھیرے دھیرے پورے ملک پر قبضہ کر اپنی حکومت قائم کر لی۔ اور اس سونے کی چڑیا کو اس بری طرح سے لوٹاکہ وہ سونے کی چڑیا مٹی کی ہوکر رہ گئی۔ دودھ کی نہریں پانی میں تبدیل ہو گئیں۔ جب یہ استحصال حد سے بڑھا تو عوام میں بے چینی بڑھی۔ اس بے چینی نے ایک تحریک کی شکل اختیار کی۔ غلامی کے جوئے کو اپنی گردن سے اتارنے کے لئے آزادی کی جنگ شروع ہوئی آزادی کی نعمت حاصل کر نے کے لئے آزادی کے متوالے ہر قربانی دینے کے لئے تیار تھے۔ آزادی کے ان متوالوں کا یہ خواب تھا کہ آزادی کے بعد جب ملک کی باگ ڈور یہاں کے لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گی تو پھر یہ دیش سونے کی چڑیا بن جائے گا اور دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی مگر جب دیش آزاد ہوا تو عوام کی تمناؤں پرا وس پڑ گئی کیونکہ انھوں نے دیکھا کہ اب غیر ملکی آقاؤں کی جگہ اس ملک کے لوگ آقا بن کر بیٹھ گئے۔ دودھ کی نہریں تو درکنار۔ جن نہروں میں پانی بہتا تھا وہ بھی سو کھ گئیں۔ وجہ یہ ہوئی کہ آزادی کو پوری آزادی کے ساتھ کیش کرایا گیا اور ملک کے لئے قربانی دینے والوں کو فراموش کر دیا گیا۔
آزادی کے بعد آزادی کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے آج ملک میں یہ حالات ہیں کہ ہر شخص پریشان ہے کوئی عوام کا دکھ درد سننے والا نہیں ہے۔ لیڈر صرف وعدوں کا ڈھیر لگا رہے ہیں اور بھاشن سے شاشن چلا رہے ہیں۔ ہر طرف لسانی، مذہبی، علاقائی تعصب کی بہار ہے اقربا پروری، مفاد پرستی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اب یہ معمول کی بات ہو گئی ہے۔
آزادی کے بعد سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی ہوئی اور اس تیزی سے ترقی ہوئی کہ ملک ایٹمی طاقت بن کر کمپیوٹر یگ میں پہونچ گیا۔ مگر اخلاقی گراوٹ اس قدر آئی کہ یقین کرنا مشکل ہے۔جھوٹ کے میزائل ہر وقت داغے جا رہے ہیں اور اسے سچ ماننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ تاریخ سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ فرقہ پرستی کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ آج ملک کی یہ حالت ہے کہ پورا ملک غیر حقیقی خلاؤں میں اس طرح اڑ رہا کہ سچائی کی زمین سے اسکا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ کوئی محکمہ ہو کوئی شعبہ ہو ہر طرف کرپشن کا بول بالا ہے۔
محکمہئ صحت کے مراکز یعنی اسپتالوں کا یہ حال ہے کہ غریب دوا علاج سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ ڈاکٹروں کے پاس ان کے لئے وقت نہیں وہ اسپتال میں بھی خوش گپیوں میں مشغول رہتے ہیں باہر لائن میں مریض کراہتے رہتے ہیں۔ بے حسی کا غلبہ ہے۔ دولت مند افراد ڈاکٹروں کے گھر پر ان کی من مانی فیس دے کر دکھا تے ہیں جس کے بدلے میں ڈاکٹران کو وہ ساری سہولیات اسپتال سے فراہم کراتے ہیں جو حکومت کی طرف سے ہر شہری کے لئے مہیا کرائی جاتی ہیں۔ عام آدمی تک اس کا ایک فیصد بھی نہیں پہونچتا۔ اگر کسی ڈاکٹر نے عام آدمی پر رحم کیا تو اسے دیکھ کر دوا لکھ دی کہ بازار سے خرید لو۔ اب تو ایک دوسرا دھندا بھی بلندیوں پر ہے ملک میں گلی گلی نرسنگ ہوم کھل گئے ہیں ان کا ڈاکٹروں سے معاہدہ ہے۔ ڈاکٹر مریض کو صلاح دیتے ہیں کہ اسپتال میں تو علاج ممکن نہیں فلاں نرسنگ ہوم میں ایڈمٹ ہو جائیے میں وہاں دیکھ لوں گا۔ دوسری طرف اب ڈاکٹر مریض کی نبض نہ دیکھ کر پہلے مرحلے میں اتنے ٹیسٹ کرواتے ہیں کہ مریض کی جیب ہلکی ہو جائے اور مریض مرض بھول جائے۔ ساتھ ہی یہ ٹیسٹ بھی ان کی مرضی کے اداروں سے کرانا ضروری ہے کہا جاتا ہے کہ اس میں بھی مالی منفعت کا معاملہ ہے۔ ڈاکٹر جو پہلے خدمت خلق کا جذبہ رکھتے تھے اب مالی منفعت کا معاملہ کرتے ہیں۔ اور کیوں نہ کریں۔؟ انھوں نے بھی اپنی تعلیم کے لئے ڈونیش دے کر داخلے لیے۔ امتحان میں سو فیصد کامیابی حاصل کرنے کے لئے کوچنگ سنٹر والوں کو فیس کے علاوہ نذرانے دئے۔ ان طریقوں کو اپنا کر جب وہ ایک عدد ڈگری (لائسنس) کے مالک بن کر اس لائق ہوئے کہ اپنا بزنس چلائیں تو انھوں نے ایک کامیاب تاجر کی طرح اپنی پوری رقم مع سود کے وصول کرنا شروع کر دی۔ اخبارات اس بات کے گواہ ہیں کہ اس ملک میں فرضی ڈگری، فرضی اسکول، پرچے آؤٹ کرانے کا باقاعدہ دھندا ہو رہا ہے۔ اس طرح بنیاد کمزور ہی نہیں۔ بلکہ فرضی ہو تو عمارت کا کیا حال ہو گا۔ تعلیم گاہیں اب تعلیم کے مراکز نہ رہ کر عیش و آرام کے اڈے بن گئے ہیں ٹیچر طالب علموں کو پڑھاتے کم۔ ان کے ٹیوشن کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
بات نہروں کی چل رہی تھی دودھ کی نہریں تو کجااب پانی کی نہریں بھی سوکھی پڑی ہیں۔ اور آبپاشی کا محکمہ جسے عرف عام میں سچّائی وبھاگ کہا جاتا ہے ا س کایہ حال ہے کہ بڑے بڑے پروجیکٹ کا غذوں پر تیار ہوتے ہیں کسانوں کی بہبود کے لئے بڑی بڑی اسکیمیں تیار کی جاتی ہیں مگر عملی طور پر سب الٹا ہو رہا ہے کسان بے حال ہے محکمہ کے افسران سے چپراسی تک باڑھ اور سوکھے دونوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں بدعنوانی شباب پر ہے۔ عوام پریشان، افسر اپنی تجوریوں کو بھررہے ہیں یعنی بے ایمانی پورے ایمانداری سے پنپ رہی ہے۔
ملک کی اقتصادی حالت بھی بہت شاندار ہے۔ آزادی کے بعد میں روپئے کی قیمت برابر گر رہی ہے۔ غیر ملکی قرضے بڑھ رہے ہیں قرض ادا کرنے کے لئے قرض لئے جا رہے ہیں َ سونا گروی رکھا جا رہا ہے۔ ہر ہندوستانی قرض کا بوجھ ڈھو رہا ہے اور غیر ملکوں کی شرائط پر جی رہا ہے۔
نواجون نسل جو مستقبل میں ملک کا مالک یا کرتا دھرتا ہوں گے ان کا یہ حال ہے کہ وہ مغرب کی نقالی میں مست۔ ڈرگ کے نشہ میں بدمست ہیں۔ بغیر محنت کے راتوں رات لکھ پتی بننے کا ارمان سجوئے ہیں۔ اور اس کی تعبیر کے لئے ہر غلط کام کرنے کو تیار ہیں۔ ملک کا مفاد کچھ نہیں اپنا مفاد ہی سب کچھ ہے ان کی نظر میں۔ طرح طرح سے عوام کو لوٹا رجا رہا ہے۔
آج حال یہ ہے کہ ایمانداری،شرافت اور اخلاق سب کتابوں کی باتیں ہو گئیں اور قصہئ پارینہ کے طور پر بیان کرنے والی داستان بن چکی ہیں۔ ہر شخص اپنے مفاد کو پورا کر رہا ہے کوئی مذہب کا ٹھیکیدار بن کر کوئی سیاسی لیڈر بن کر، کوئی سماجی و ملی کارکن بن کر، نتیجہ یہ ہے کہ ملک گھوٹالوں کا ملک بن گیا۔ اور اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ کون کس کی خبر لے۔ عوام بنیادی ضرورتوں روٹی، کپڑا اور مکان سے بھی محروم۔
ہم ہندوستانی ہے ساری دنیامیں ہماری امیج کیا ہے اس کی صحیح عکاسی شاید تشنہ عالمی کا یہ شعر کرتا ہے:
مفلسی اور بھوک کا عنواں کسی نے لکھا دیا
میرے چہرے پر یہ ہندوستان کس نے لکھ دیا
منظور پروانہؔ
چکن شاپی، نظیر آباد، لکھنؤ۔226018