آل انڈیا مسلم مجلس ‘حق کانفرنس’ میں صوبائی سدرپروپھےسر محمد سلیمان کا خطاب
لکھنؤ: آج ملک میں ایک مخصوص قسم کے نظریات مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے لئے تشدد سہارا لياجارها ہے، حکمران طبقے اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہا ہے، جو کافی سنگین معاملہ ہے. ملک میں فاشسٹ طاقتیں اس قدر حاوی ہو چکی ہے کہ گورنر تک مخصوص نظریات کی تنظیم اور کیمپ میں جانے پر فخر محسوس کر رہا هےپھساي ذہنیت کے لوگ اپنے من کی بات تو کرتے ہیں مگر دوسروں کے دل کی بات نہیں سنتے ہیں، تو ضروری ہے کہ دلت، پسماندہ اور مسلمان اس کے خلاف متحد ہو کر پرزور آواز اٹھائیں. ان خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے ریاستی صدر پروفیسر محمد سلیمان نے گناسنستھان ڈالا گارڈن میں منعقد ‘حق کانفرنس’ میں کیا
مسلم مجلس مشاورت کے جنرل سکریٹری محمد خالد نے اپنے خطاب میں کہا کہ 1964 میں ندواتل علماء میں بیٹھ كرےك پلیٹ فارم پنانے کی کوشش کی گئی تھی، مسلم تنظیموں کو اپنے علاقے میں کام کرتے ہوئے متحد کرنے کی کوشش کی گئی تھی، اس کے نتیجے میں جو تنظیم وجود میں آیا اس کا نام آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی ملک کے تمام محروم طبقوں کو ملک کے وسائل پر حق ہو اور اس کا فائدہ ملے، اس کے لئے آج کا یہ صوبائی پروگرام منعقد کیا گیا ہے، یہ تحریک تمام محروم طبقوں کے مسائل کو حل ہونے تک جاری رہے گا
تنظیم کے سیکرٹری طارق صدیقی نے’اوبي سی 27 نسد بکنگ تمام مستپھذين آبادی کے تناسب میں تقسیم ‘موضوع پر اپنے خطاب میں کہا کہ ملک ایک مور کی طرح ہے، لیکن اس کے پاؤں میں ایک بدنماداگ ہے جس پر نظر پڑتے ہی اس کی ساری خوبصورتی کم پڑ جاتی ہے، اس کی بہترین مثال ملک کے اندر ذات پات کے نظام ہے، اسے دور کرنے کے لئے قربانی دینا ہوگا. جب تک ملک کے سارے حصوں مضبوط نہیں ہو جاتے اس وقت تک ريذرےشن نظام جاری رہنا چاہئے. 27 فیصد ریزرویشن میں سے 4 یا 5 نسد حصہ مسلمانوں کو بھی ملنا چاہئے تھا، لیکن ایسا نہیں ہو سکا. مسلمانوں کی جانب سے مطالبات ہوئے مگر اسے پورا نہیں کیا گیا. کئی ریاستوں میں خاص طریقے سے مسلمانوں کو ریزرویشن دیا گیا ہے مگر یوپی میں نہیں دیا گیا ہے، ریاست میں حکمراں سماج وادی پارٹی مسلمانوں کی خیر خواہ ہے، اس پر سماج وادی حکومت کو سنجیدگی سے غور ہونا چاہئے اور مسلمانوں کو ان کے حق ديناچاهے
مولانا شہاب الدین مدنی نائب صدر مسلم مجلس مشاورت نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے جدوجہد. بکنگ کافی گرم موضوع رہا ہے، ملک میں پسماندہ اور پسماندہ طبقات کے لئے لاگو کیا گیا تھا مگر آج اس پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں کیونکہ یہ ریزرویشن کافی دنوں سے دیا جا رہا ہے، لیکن کیا ان بکنگ پانے والے علاقوں کے حالات سدھر گئے اور وہ معاشرے میں قابل احترام ہو گئے تو اس کا جواب نہیں ہے. آبادی کے تناسب سے ہندو اور مسلمانوں دونوں کو ریزرویشن ملنا چاہئے. مولانا نے کہا کہ ہمارا مطالبہ حق ملنے تک جاری رہے گا
وریندر كمارموريه صدر آل انڈیا اکھل بھارتیہ پسماندہ طبقے فیڈریشن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک کی آزادی کے وقت اگر یہاں کی زمین ہم وطنوں میں آبادی کے تناسب میں تقسیم کر دی گئی ہوتی تو آج کسی کو ریزرویشن کی ضرورت نہیں هوتياج ایک اندرارهايش مقام اسکیم کے لئے ملک کے وزیر اعظم سے لے کر گاؤں کے پردھان تک بے گھروں پر احسان جتاتا ہے. آزادی کے بعد سیاسی رہنماؤں نے عام لوگوں کو بااختیار بنانے کے تناسب سے شرکت نہیں دی ورنہ آج یہ حالات نہ ہوتے. انہوں نے کہا کہ برہمن ازم اور منوادي مربع آج بھی چاہتا ہے کہ دلت اور پسماندہ ان کے غلام بن کر رہیں، اس کے لئے آر ایس ایس کے کارندے رام راج کی بات کر رہے ہیں اور جو دل میں آ رہا ہے فروخت کر رہے ہیں. دلتوں، پچھڑواور مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے كيلےان میں امتیازی سلوک پیدا کی جا رہی هےبابا امبیڈکر نے کہا تھا کہ ہندو مذہب میں پیدا ضرور ہوا ہوں مگر میں ہندو مذہب میں مرو نہیں ہوگا. هندوكوي مذہب نہیں ہے بلکہ ایک نظریہ ہے. انہوں نے کہا کہ بابا رام دیو آج سر کاٹنے کا بیان دے رہے هيميڈيا اور کورٹ اس کا نوٹس نہیں لے رہا ہے تو یہ طریقہ بیان کسی اور طبقے کے شخص نے دیا ہوتا تو آج وہ جیل اندرهوتا. یہ ملک کسی کے باپ کا نہیں ہے، بلکہ ہمارا ہے. دلت، مسلم اور پسماندہ مل کر اس کا نقشہ تبدیل کر دیں گے. تمام لوگوں کو آبادی کے تناسب میں ریزرویشن کا حق ملنا ہی چاہئے
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے نائب صدر اوسابك آئی اے ایس انیس انصاری نے کہا کہ بھارت کا آئین دنیا کے بہترین آئین ہے، آئین میں ملک کے تمام طبقے کو برابر اومساوي حق دیا گیا ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ایک سیاہ قانون کے تحت یہ طے کر دیا گیا ہے کہ ریزرویشن کا فائدہ صرف سپریم کورٹ کے ہندوؤں کو ملے گا، کافی جدوجہد کے بعد اس میں سکھوں اور نوبدھو شامل كرلےاگيا مگر مسلمانوں اور اےسايوكو اس میں شامل نہیں کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے مسلمان ایک بڑے فوائد سے محروم ہیں. مسلمانوں اور عیسائیوں کو اس سے محروم رکھنا کھلے عام آئین کی خلاف ورزی هےانيس انصاری نے کہا کہ 10 سال کے اندر اندر ملک میں 13 لاکھ کسانوں نے خود کشی کر لی ہے. دھوپ، سردی اور بارش میں سخت محنت برداشت کرکے ہم وطنوں کو اناج دینے والے کسانوں كوكھساره برداشت پڑ رہا ہے. انہیں حکومتوں کی طرف سے کئی مدد فراہم نہیں کی جا رہی ہے جبکہ اس کے برعکس صنعتوں اور صنعت کاروں کو حکومت بھرپور مدد فراہم کرتی ہیں
امميڈكر معاشرے کے سدرتےج سنگھ نے کہا کہ آزادی کے 68 سال بعد بھی حق کانفرنس کا انعقاد ہونا بدقسمتی کی بات ہے اور یہ سب ہمارے لیڈروں کی وجہ سے ہو رہا ہے. آج دلت ہندو دہشت گردی کا شکار ہے .5 ہزار سال سے ہم اس سے دو چار ہیں. دلت اگر ہندو ہے تو ان کے بنیادی حقوق کیوں نہیں بحال کئے جا رہے ہیں، اگر دلت ہندو ہیں تو کیوں نہیں برہمن ان سے روٹی اور بیٹی کا رشتہ کیوں نہیں کر رہا ہے. اس ملک میں دو قومیں ہیں ایک حرام خور اور ایک درست سرهرام خور اقتدار کا مزہ لوٹ رہے جبکہ حلال خور سب کچھ کھو ہے. انہوں نے کہا کہ دلتوں کے لئے میٹھا زہر کانگریس تھی اور کڑوا زہر بی جے پی ہے
پروفیسر رمیش دکشت نے کہا کہ اگر ہم ایسا سماج بنایا دینا چاہتے ہیں جہاں سب کو مساوی حقوق حاصل ہوں تو متحد ہو کر اور سب کو ساتھ لے کر جدوجہد کرنا ہوگا. 2014 میں اگر بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تو یہ دلتوں اور پسماندہ طبقات کے ووٹ سے آئی ہے، اب تک جتنی بھی حکومتیں اقتدار میں آئی ہیں انہیں آزادی ء میں کوئی نہ کوئی كرادار تھا مگر اس وقت جو پارٹی اقتدار میں ہے کے آزادی ء میں کوئی کردار نہیں ہے. سنگھ پریوار کا نظریہ دنیا کی ساری تنظیموں سے خطرناک ہے
رام لکھن پاسی نے کہا کہ سب سے بہتر مالی نے سمجھا جاتا ہے جس کے باغ کا کوئی پھول كمكھلانے نہ پائے مگر آج ملک میں ایسی حکومت اقتدار میں ہے جو ملک کے مفاد میں نہیں سوچ رہی ہے. آج مسلمانوں سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ مانگا جا رہا ہے، منواسمرتي بات کی جا رہی ہے جس میں لکھا ہے کہ اگر دلت وید پڑھے تو اس کے کان میں گلاس پگھلا کر رکھا جاےدوسري طرف ریاست میں ایسی حکومت ہے جو خاندان کے 20 افراد مختلف عہدوں پر قابض هيار آر ایس ایس کے بھاگوت بکنگ جائزہ کی بات کر رہے ہیں تو ویدوں کا بھی جائزہ لیا جانا چاهےيوريشيا سے آکر آج وہ ہم پر حکومت کر رہے ہیں جب کہ اس ملک کے باشندے ہر چیز سے محروم ہیں
خواتین ریزرویشن کے معاملے پر ناہید عقیل اورواتين کمیشن کی رکن سبینا شفیق نے روشنی ڈالی اور عورتوں کو ہر علاقے اور خطوط پر 50 نسد ریزرویشن کی مانگ كياپروگرام سے بلونت سنگھ چارواك، وی ایل ماتنگ، ارشد اعظمی اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا. پروگرام کی صدارت آل انڈیا مسلم مجلس کے قومی صدر نوید حامد اور آپریشن مولانا شہاب الدین مدنی نے کی
اس موقع پردباي صدر پروپھےسرمهمد سلیمان نے مناراشاد ‘ایوارڈ سے قومی صدر نويدشامد کو نوازا، جبکہ وریندر کمار موریہ، وی ایل متانگ، تیز سنگھ، رام لکھن پاسی، سبینا شفیق اور بلونت سنگھ کو’ سماجی انصاف ‘ایوارڈ پیش کیا گیا
اس موقع پر مقبول حسین بانی رکن آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت، سابق ممبر اسمبلی شیام شکلا، متین انصاری، انور ابراہیم وارثی، گنگا رام چودھری، خان محمد عاطف، وی سی کریلا، محمد حنیف، احسان الحق، جیا حسن عثمانی، عبد ہاشمی اور بڑی تعداد میں ناظرین موجود تھے
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی مانگ
حكومت اترپردیش منڈل کمیشن کی سفارشات کی بنیاد پر دیگر پسماندہ طبقات کے 27 نسد ریزرویشن کو متعلقہ علاقوں کی آبادی کے تناسب کے لحاظ کی تقسیم کرے، جیسا کہ بہار اور مغربی بنگال کی حکومتوں نے کیا ہے
. دفعہ 341 غیر آئینی مسترد کرکے مسلمان اوےساي دلتوں کو بھی ریزرویشن فراہم کیا
خواتین کی کافی نمائندگی یقینی جاے
كسانو مسائل پر توجہ دی جائے گی اور انہیں ترجیح کی بنیاد پر حل کیا جاے
ملك میں استحصال قوتوں کو لگا م دی جائے اور ان کے نظریات اوگٹھريات پر پابندی لگایا جائے جو ہمارے تکثیری سماج کو گندی کرنے پر آمادہ ہیں
کمزور طبقوں کی دل آزاری اور ان کے بنیادی حقوق کے سلسلے میں سماج کو گمراہ کرنے والی طاقتوں پر قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے