این آئی اے افسر تنزیل احمد کا بہیمانہ قتل خفیہ ایجنسیوں اوردفاعی محکموں کے لئے بڑا چلینج بن گیا ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تنزیل احمد کئی دہشت گردانہ واقعات کی جانچ کرتے ہوئے ان واقعات کی حقیقت تک پہونچ چکے تھے۔ہندوستان میں ہونے والے اکثر دہشت گردانہ واقعات کے پیچھے غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ ملکی یرقانی دہشت گرد تنظیمیں بھی متحرک رہی ہیں۔اس حقیقت سے جس نے بھی پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اسکا قتل کردیا گیا اور آج تک اس قتل کی جانچ کسی تسلی بخش نتیجہ پر نہیں پہونچ سکی یہ تشویشناک ہے۔جس طرح کرکرے کے قتل کو مشتبہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی اسی طرح تنزیل احمد کے قتل کی حقیقت کو بھی مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے۔الکٹرانک میڈیا زعفرانی و بھگوا تنظیموں کا پیڈ میڈیا ہے لہذا ان چینلوں پر ا س واقعہ کا وہی رخ پیش کیا جائیگا جو بھگوا بریگیڈ چاہے گی۔مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں کیا چاہتی ہیں۔کیا وہ اسی طرح غیر متعصب وطن پرستوں کے قتل پر خاموش رہینگی یا انکے قتل کی حقیقت کو ملک کے عوام کے سامنے لیکر آئیں گی۔ابھی تک این آئی اے نے تنزیل احمد قتل میں دہشت گردانہ منصوبوں کے امکانات کو مسترد نہیں کیا ہے اس لئے امید کی ایک کرن موجود ہے۔۔ان جانچ ایجنسیوں پر ملک کی سلامتی کا دارومدار ہے اگر وہ اپنی ذمہ داری کو پوری ایمانداری کے ساتھ انجام دیں تو تنزیل احمد قتل کی سچائی پردہ ئ راز میں نہیں رہے گی۔

آخر کیا وجہ ہے کہ ہر وہ افسر جو ہندوستان میں جاری دہشت گردی کی جڑوں تک پہونچنے کی کوشش کرتاہے اسکا قتل کرادیا جاتاہے۔اسکی کئی مثالیں ہندوستانی تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں۔پہلے ہیمنت کرکرے کو شہید کیا گیا اور اب تنزیل احمد کو نشانہ بنایا گیاہے۔ا س فہرست میں اسی طرح شہیدوں کے ناموں کا اضافہ ہوتا رہیگا کیونکہ ابھی تک کرکرے کے قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں لگاہے۔تنزیل احمد کے قاتلوں کا کیا ہوگا یہ آنے والا وقت بتائیگا۔یوں بھی ہمارے ملک میں قاتلوں کی سیاسی پذیرائی ہوتی رہی ہے۔بہرحال ان قاتلانہ واقعات سے یہ بھی ثابت ہوجاتاہے کہ دہشت پھیلانے والا گروہ ملک میں موجود ہے۔یہ گروہ کہاں ہے اور کس لباس میں ہے یہ خفیہ ایجنسیوں کے لئے بڑا سوال ہوسکتاہے۔اگر ہماری ایجنسیاں اس گروہ سے متعلق معلومات نہیں رکھتی ہیں تو یہ ملک کی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ ہے۔اور اگر اس گروہ کی معلومات انکے پاس ہیں تو ابھی تک یہ گروہ آزاداکیوں ہے؟۔اگر جان بوجھ کر اس گروہ کو چھوٹ دی گئی ہے تو پھر ہم دہشت گردی پر ٹیسوے بہانا بند کردیں۔

ہنمن تھپا کی شہادت پر ملک کی بھگو ا تنظیموں نے کتنا سیاسی ہنگامہ کیا یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔اس وقت ہر ہندوستانی کے لئے فرض اولیں یہ تھا کہ پاکستان کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگائے اور شہید ہنمن تھپا کو خراج عقید ت پیش کی جائے۔شہید ہنمن تھپا کی بہادری اور جاں نثاری کو ملک کے ہر شہری نے یقینا سلام کیا تھا مگر بھگوا تنظیمیں اس سلام کو کیسے قبول کرتیں لہذا ہر کسی پر واجب کردیا گیا کہ وہ شہید فوجیوں کو اسی طرح خراج عقیدت پیش کرے جس طرح بھگوا تنظیمیں چاہتی ہیں۔جن مسلم تنظیموں یا مسلم سیاسی رہنماؤں کے بیانات نہیں آئے تھے اسے ایک بڑا مسئلہ بناکر پیش کیا گیا کہ گویا مسلمانوں میں حب الوطنی کی کمی ہے اور وہ ہندوستانی سرحدوں پر پاکستانی فوجیوں کا تسلط دیکھنا چاہتے ہیں۔مگر آج تنزیل احمد کے قتل پر وہ سبھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔حد یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور انکے دفتر کی جانب سے کوئی تعزیتی پیغام بھی جاری نہیں ہوا۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم ہر مسئلے کو ذات پات اور مذہب کی عینک لگاکر دیکھتے ہیں۔ملک کا محافظ خواہ وہ فوجی ہو یا پولس اہلکار یا کسی دوسرے محکمہ سے متعلق ہو اسکی شہادت پر بھی سیاست کی جاتی ہے۔وہ ہندوستانی مجاہد نہ ہوکر ہندو یا مسلمان بنادیا جاتاہے۔اس خطرناک فکر کو ملک میں بھگوا تنظیموں نے فروغ دیاہے۔حیرت یہ ہے کہ ایسے مہلک جراثیم ملک کی سیکولر جڑوں کو کھارہے ہیں اور تمام سیکولر جماعتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔شاید یہ جماعتیں بھی اب نام کی سیکولر ہیں کیونکہ ان جماعتوں میں بھی اکثریت زعفرانی فکر کی حامی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ تنزیل احمد کے قتل کی غیر جانبدارانہ جانچ ہو اور جلد از جلد انکے قاتلوں کو تلاش کرکے کیفر کردار تک پہونچا یا جائے۔ساتھ ہی یہ حقیقت بھی آشکار ہو کہ آخر یہ لوگ کون ہیں اور کس گروہ سے وابستہ ہیں جو ملک کے وفادار سپاہیو ں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔خفیہ جانچ ایجنسیاں غیر جانبداری کے ساتھ بغیر کسی سیاسی دباؤ کے تنزیل احمد قتل کے ساتھ ایسے تمام واقعات کی حقیقت تک پہونچیں کیونکہ یہ مسئلہ ملک کی سلامتی کا ہے۔سیاسی جماعتوں اور سیاسی افراد کا کوئی واضح مؤقف نہیں ہوتاہے اور نہ انکے عہدوں کو دوام ہوتاہے مگر ایسے واقعات کی حقیقت تک اگر ایجنسیاں رسائی حاصل کرلیتی ہیں تو ہمارا داخلی دفاعی نظام پوری دنیا کے لئے ایک بہترین مثال بن سکتاہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہئے کہ کرکرے سے لیکر تنزیل احمد کے قتل تک کے تمام واقعات کی غیر جانبدار جانچ کرائیں کیونکہ وہ ہندوستان عوام کے وزیر اعظم ہیں ناکہ کسی پارٹی یا کسی جماعت کے نمائندہ ہیں۔اس ملک کی عوام کو اس دن کا شدت سے انتظار ہے جس دن ہیمنت کرکرے جیسے غیر متعصب جانباز اور وطن پر ست سپاہیوں کے قاتلوں کو بے نقاب کرکے سزا دی جائیگی اور وطن مخالف جماعتوں پر شکنجہ کسا جائیگا۔

عادل فراز لکھنؤ

adilfaraz2@gmail.com