قرآن خدا کی آخری کتاب اور رسولِ عربیؐ کا وہ لاثانی ولا فانی معجزہ ہے جس کے سامنے اہلِ عرب کی زبانیں گنگ، اہل عجم کی عقلیں دنگ۔ فلسفی، شعراء، حکماء، اور فقہاء سرنگوں۔ مسلمانوں کے لئے ہدایت نامہ اور مکمل آئین اِلٰہی۔ یہ معرفتِ الٰہی کا خزینہ، حکمت و موعظت کا گنجیہ۔
قرآن پورے نوعِ انسانی کے لئے سب سے بڑی رحمت۔ قرآن نے دلوں کی دنیا بدل دی، زندگیوں کی کایا پالٹ دی۔ تمندن کا درس دیا، اخلاقِ حمیدہ اور اوصاف جمیلہ کی تعلیم دی۔ انسان کی زندگی کو جوہر انسانیت اور گوہر اخلا ق سے آراستہ کیا۔
قرآن نے معاشرت، سیاست، معیشیت کے اصول و آداب بتائے۔ جن کی بنیاد پر صالح اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور آئیڈیل حکومت کی بنیاد ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ اس جہانِ فانی، جوگود سے گور تک کی ہے رہنمائی کی۔ لازوال ابدی زندگی کا بھی پورا نقشہ ہمارے سامنے رکھ دیا۔قیامت کی ہولناکی، عالم برزخ، جنت اور دوزخ کی معلومات فراہم کیں۔
مندرجہ بالا حقائق اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ قرآن مکمل ضابطہئ حیات کی تعلیم دیتا ہے مگراس کا علم ہم کو کس طرح ہو سکتا ہے جب کہ ہم نے قرآن کو صرف باعثِ برکت سمجھ کر خوبصورت جزدانوں میں لپیٹ کر عقیدت و احترام کے ساتھ طاقوں میں سجا رکھا ہے۔ اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو اس کی تلاوت پوری عقیدت کے ساتھ کرتے ہیں۔ مگر صرف تلاوت۔ کیونکہ وہ اس زبان سے واقف ہی نہیں اس لئے وہ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ وہ جس کتاب کی تلاوت کر رہے ہیں اس کا مطلب کیا ہے۔ اور اس کتاب کے ذریعہ وحدہ‘ لا شریک نے ہم پر کیا فرائض عاید کئے ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ پر ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر قرآنِ کریم کی صرف تلاوت کی جائے تو بھی اس کا ثواب ملے گا، اور اکثریت اسی پر عمل پیرا بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کو صرف عبادات تک محدود کر رکھا ہے۔ اسی لئے قرآن کے ان احکامات کو جان لینا کافی سمجھ لیا ہے جن کا تعلق ان عبادات سے ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے اکثر و بیش ترعلماء بھی اپنی تقریروں میں اسی پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ مگرجب قرآن مکمل ضابطہئ حیات ہے تو پھر قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے ہی اس کے تمام احکام کا علم ہوگا۔ اور اسی کے ساتھ دہرا اجر بھی ملے گا۔ ایک تلاوت کا دوسرا اسے سمجھنے میں کی جانے والی محنت کا۔ اسی طرح جب قرآن کو سمجھ کر پڑھا جائے گا اور اس کے بتائے ہوئے احکامات کا علم ہو جائے گا تو اسکی پابندی کے لئے دل میں رغبت بھی پیدا ہوگی۔ جس سے دنیا اور آخرت دونوں ہی سنور جائیں گے۔ لیکن دورِ حاضر میں فکر و تدبر تو بڑی چیز ہے ذکر کے ہی لالے پڑے ہیں، یعنی قرآن کی تلاوت کرنا ہی ہم پر بار ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بات تو اکثر مشاہدے میں آتی ہے کہ اکثر وہ لوگ جو قرآن کی تلاوت کر سکتے ہیں۔ وہ بھی بذاتِ خود قرآن کی تلاوت نہ کر کے اس کے کیسٹ لگا کر اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ قرآن پڑھنے کا اہتمام تو مشکل ہے ہی سن نے کا بھی اہتمام نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم روشنی سے اندھیرے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس سیاہی سے بطل و جھوٹ کی عمر بڑھ رہی ہے گناہ پھل پھول رہے ہیں جیسے جیسے یہ تاریکی بڑھ رہی ہے بطل و جھوٹ کا درخت تناور ہوتا رجا رہا ہے۔
نیکی اور بدی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یہ جنگ ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ جس طرح ایک اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہو سکتا اس طرح نیکی اور بدی بھی برابر نہیں ہو سکتی۔ جو لوگ قرآن کی حقیقی روشنی سے وہبی طاقت حاصل کرتے ہیں اور قرآن کے ذریعہ خدائے بزرگ و برتر سے کسب نور کرتے ہیں۔ وہ شیطنیت کی سیاہی سے کبھی نہیں ڈرتے۔ اور اپنی پوری زندگی احکامِ خداوندی کی پابندی کرتے ہوئے گزار کر سکون حاصل کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ تاریکی پر غالب آنے والی روشنی یا بدی سے نبزد آزما ہونے والی نیکی کی صفت ہم میں کیسے پیدا ہو سکتی ہے۔ قرونِ ادنیٰ کے مسلمانوں میں اگر یہ صفت تھی تو کیوں کر۔ حقیقت یہ ہے کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے قرآن کو پوری طرح سمجھا اور قرآنِ ناطق رسول عربیؐ کی سیرت سے اس کی عملی تفسیر کو جانا۔ اور اسے اپنی زندگیوں میں اتارا اور خود کو قرآنی احکامات کا پابند بنا یا یعنی پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو گئے۔ اس طرح وہ ایک ایسی مخلوق بن گئے کہ ان کے عمل و کردار اور اخلاق کو دیکھ کر ہی لوگ سمجھ لیتے تھے کہ یہ خدا کے شیر ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہو اکہ ساری دنیا ان کے آگے سرنگوں ہونے لگی۔ کیونکہ وہ اللہ اور اس کے احکاموں کے سامنے سرنگوں رہے۔
آج کے دور میں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن کریم کو جزدانوں سے نکال کر اس کے ذکر کو اپنی زندگی کا ورد بتائیں اور اس ذکر کی تکرار سے جب فکر پیدا ہوتو تدبر کے ساتھ اس کو سمجھیں۔ اس طرح ہم کو یہ علم ہو گا کہ قرآن کا ہم سے کیا مطالبہ ہے اور قرآن نے ہمارے لئے کیا ضابطہئ حیات طے کیا ہے۔ جب ان باتوں کا علم ہم کو ہو جائے گا تو ان پر عمل کرنے میں دشواری نہ ہو گی اس طرح ہم صرف گفتار کے غازی نہ ہوکر کر دار کے غازی بن سکیں گے جس سے ہماری پوری زندگی احکامِ خداوندی جو ہم کو رسولِ عربیؐ کے ذریعہ ملے ہیں کہ پابندی میں گذارنے اور دنیا و آخرت سنوارنے میں مددملے گی۔ اور سرخ روئی ہمارا مقدر بن جائے گی۔ کیونکہ دنیا میں ہم جیسے عمل کرتے ہیں آسمانوں پر اس کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں۔ جب ہم اللہ کی غلامی کو پسند کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس دنیا میں بھی سر بلندی عطا فرمائے گا اور آخرت میں بھی اس کا اجر عظیم اپنی رضا کی صورت میں عطا کرے گا۔ جو ایک سچے مسلمان کے ایمان کی معراج ہے۔ اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب ہم قرآن کو مکمل ضابطہئ حیات کی طرح اپنی زندگیوں میں اتارلیں۔
منظور پروانہؔ
چکن شاپی، نظیر آباد، لکھنؤ۔226018ُ