ایران کے ایک اخبار “رسالت” نے انکشاف کیا ہے کہ جون 2015 میں تہران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان دستخط کیے جانے والے جامع معاہدے کے پیچھے دیگر معاہدے بھی ہوں گے جن میں ایران کا اسرائیل کو تسلیم کرنا شامل ہے۔

ملک میں سخت گیر بنیاد پرست گروپ کے نزدیک سمجھے جانے والے اخبار نے بتایا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے مخصوص حلقے نیوکلیئر معاہدے کے بعد کے اقدامات پر کام کر رہے ہیں۔ ان میں ایران کا اسرائیل کو تسلیم کرنا، ایران میں اعلی ترین اختیارات کی حامل “شوری نگہبان” کو تحلیل کر دینا اور ملک میں سیاسی افق سے خمینی کے اسلوب کو ختم کر دینا شامل ہیں۔

اخبار نے ضمنی طور پر ایران میں مجلس تشخیص مصلحت نظام کے سربراہ اکبر ہاشمی رفسنجانی کو ان کے حالیہ بیان کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس بیان میں رفسنجانی کا کہنا تھا کہ یہ “مذاکرات کا دور ہے نہ کہ میزائلوں کا”۔ اخبار نے رفسنجانی کے بیان پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ آئندہ معاہدوں میں ایران کے میزائل پروگرام کو ہدف بنایا جائے گا کیوں کہ دور تو مذاکرات کا ہے نہ کہ میزائلوں کا”۔

روزنامہ “رسالت” کا کہنا ہے کہ خطے میں حلیفوں کی حفاظت یعنی “مزاحمت کے محور” میں ایران کا کردار بھی ختم ہو جائے گا۔ اخبار کے مطابق “تیسرے معاہدے میں لبنان کی حزب اللہ، فلسطین کی حماس اور یمن کی انصار اللہ تنظیموں کے علاوہ بشار الاسد کا بھی خاتمہ عمل میں آئے گا کیوں کہ یہ سب شدت پسند اور دہشت گرد ہیں اور عالمی نظام کے لیے خطرہ ہیں”۔

اخبار مزید لکھتا ہے کہ “چوتھے معاہدے میں ایران میں سیاسی فیصلوں کے میدان سے خمینی کے افکار اور اسلامی انقلاب کے اسلوب اور رجحان کو ختم کر کے انہیں میوزیم کی زینت بنا دیا جائے گا۔ آئین میں تبدیلی کے ساتھ “ولایت فقیہہ” کی جگہ “رہ نما شوری” لے گی۔

اخبار نے روحانی کی حکومت اور اس کے اصلاح پسند حلیفوں پر بھی کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ اس لیے کہ وہ نیوکلیئر معاہدے کے بعد مغرب کے ساتھ معمول کے تعلقات کی ترویج کر رہے ہیں۔ اخبار کے مطابق یہ تمام معاہدے امریکی وزارت خارجہ کے حلقوں میں تیار کیے گئے ہیں اور ان پر عمل درامد سے قبل سرکاری ملاقاتوں، مذاکرات اور فریقی کے دستخط کا انتظار ہے۔

اخبار کے نزدیک “فریقین شخصیات، مشیروں اور میڈیا کے ذریعے رائے عامہ استوار کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ ان شخصیات کو تیار کر کے درحقیقت فیصلہ کرنے والے حلقوں کو بنا دیا گیا ہے جنہیں آئندہ معاہدوں کی قیادت کرنا ہو گی”۔

اخبار کے مطابق”بہترین ممکنہ صورت میں بھی حتمی مقصد یہ ہے کہ ایران کو اس کی سابق پوزیشن پر واپس لے آیا جائے یعنی کہ اس کو امریکا کی پیروی کرنے والے حلقوں میں سے بنا دیا جائے”۔ اسی دوران اخبار نے سیاسی شخصیات اور گروپوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ان مقاصد کو یقینی بنانے کے لیے غیرملکی سفارت خانوں اور انٹیلجنس اداروں کے ساتھ مسلسل رابطوں میں ہیں۔

اخبار کا دعویٰ ہے کہ نشانہ بنائی گئی ان شخصیات میں سے “اکثر کو یا تو حراست میں لے کر ایرانی جیلوں میں رکھا گیا ہے یا پھر وہ بیرون ملک رہ کر امریکی وزارت خارجہ ور غیرملکی میڈیا کے مفاد میں کام کررہے ہیں”۔ اخبار نے مزید لکھا ہے کہ “اندرون اور بیرون ملک یہ گروپ ایرانی ذمہ داران کے نظریات پر اثرانداز ہو کر آئندہ معاہدوں کی تیاری پر کام کر رہے ہیں”۔