شامی صدر بشارالاسد نے حزبِ اختلاف کے ساتھ مل کر نئی حکومت کی تشکیل پر آمادگی ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ اپوزیشن کی شخصیات کی شمولیت سے نئی حکومت پر متفق ہونا کوئی مشکل نہیں ہوگا لیکن ان کے مخالفین نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا ہے اور کہا ہے کہ جب تک وہ اقتدار میں رہتے ہیں،اس وقت تک کوئی بھی انتظامیہ قانونی نہیں کہلائے گی۔
شامی صدر کو تاریخی شہر تدمر (پلمائرا) میں ان کی وفادار فوج کی داعش کے خلاف جنگ میں فتح پر تقویت ملی ہے اور اسی فتح کی خوشی میں سرشار ہوکر وہ اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں۔انھوں نے روس کی خبررساں ایجنسی ریا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”نئے آئین کا مسودہ چند ہفتوں میں تیار کیا جاسکتا ہے اور اپوزیشن ،آزاد نمائندوں اور وفاداروں پر مشتمل حکومت پر اتفاق کیا جاسکتا ہے”۔
انھوں نے کہا کہ ”وزارتوں کی تقسیم اور دوسرے ٹیکنیکل ایشوز پر جنیوا امن مذاکرات میں تبادلہ خیال کیا جائے گا اور یہ کوئی مشکل سوالات نہیں ہیں”۔جنیوا میں اپریل میں شامی حکومت اور حزب اختلاف کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا نیا دور ہو گا۔
شامی صدر نے حزب اختلاف کے عبوری حکومت کے قیام کے مطالبے کو بلاجواز اورغیر منطقی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ”اسی لیے تنازعے کا حل قومی اتحاد کی حکومت کے قیام میں مضمر ہے اور وہ نیا آئین تیار کرے گی”۔ان کا کہنا تھا کہ اس نئی عبوری حکومت کی تشکیل پر جنیوا میں اتفاق کر لیا جائے گا۔
حزب اختلاف کے مذاکرات کاروں نے فوری طور پر بشارالاسد کے ان ریمارکس کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ مکمل اختیارات کی حامل ایک عبوری حکومت کے قیام کی صورت ہی میں تنازعے کے سیاسی حل پر اتفاق کیا جاسکتا ہے اور یہ حکومت بشارالاسد کی ماتحتی میں نہیں ہونی چاہیے۔
حزب اختلاف کی اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی کے رکن جارج صبرہ نے کہا ہے کہ ”بشارالاسد جس طرح کی باتیں کررہے ہیں،ان کا سیاسی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے”۔
امریکا نے بھی شامی صدر کے اس بیان کو مسترد کردیا ہے۔وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ایرنسٹ نے کہا ہے کہ ”میں نہیں جانتا کہ انھوں نے خود کو کیسے اس قومی عبوری حکومت کا حصہ سمجھ لیا ہے۔اسی سے واضح ہے کہ ہمارے لیے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے”۔