کل جگ تو ایک لمبے عرصے سے چل رہا ہے مگر کلجگ کا دور حاضر بڑا عجیب دور ہے اس دور کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ہر عمل کا پھل فوری طور پر سامنے آجاتا ہے۔ اگر آپ اپنی کلجگی عقل کو استعمال کرنے کے ماہر ہیں تو آپ اپنے عمل سے اپنی خواہش کے مطابق پھل حاصل کر سکتے ہیں۔ستیہ جگ اور اس کے بعد کے یگوں میں لوگ جو عمل کرتے تھے وہ اس آس پر کرتے تھے کہ اس کا پھل پرلوک میں ملے گا اور مکتی ملے گی۔ اس زمانے میں لوگ اپنے عمل سے عوامی فلاح کے کام کرتے تھے۔ مثلاً کنواں، تالاب، سرائے، باؤلی وغیرہ تعمیر کراتے تھے۔ راہوں میں مسافروں کی راحت کے لئے شجر کاری کراتے تھے یہ سارے کام خلوصِ دل اور نیک نیتی سے صرف اپنے پالن ہار کو راضی کرنے کے لئے کرتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ عمل سے زیادہ اہمیت دان کو حاصل ہو گئی مگر وقت نے ایک کروٹ اور بدلی اب دان کے معنی ہی بدل گئے۔ پہلے زمانے میں دان لینے والا بچھیا کے دانت نہیں گنتا تھا۔
دورِ حاضر میں دان دینے میں خلوص کم نام و نمود زیادہ نظر آنے لگا۔ اب دان دوسروں کو متاثر کرنے اور سماج میں اپنے کردار کو چمکانے کا وسلیہ بن گیا ہے۔ اب تو دان کا اسٹنڈرڈ بھی بدل گیا ہے۔ یعنی دان میں دی جانے والی چیزوں کا معیاربھی گر گیا ہے ذاتی استعمال اور دان دینے والی اشیاء کو دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ بیگم کی ساڑی اور دان کی ساڑی، اپنے استعمال کے ناریل اور چڑھاوے کے ناریل کی کوالٹی الگ الگ مقرر کر دی گئی ہے۔ یہ وبا اس قدر عام ہو گئی ہے کہ اب دوکاندار بھی یہ پوچھنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے کہ سامان ذاتی استعمال کے لئے چاہئے یا دان کے لئے۔
آج کے جگ میں دان کا مطلب ”چڑھاوا“ ہو گیا ہے وہ بھی آپ کی اپنی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ چڑھاوا لینے والے کی مرضی کے مطابق ہو تو کامیابی مل سکتی ہے۔ اگر آپ کسی مندر یا درگاہ پر درشن کے لئے جائیں اور وہاں پر آپ کو عقیدتمندوں کی لمبی قطار لگی ملے اور آپ اس لائن کو اختیار نہ کرنا چاہیں تو آپ دان کی لائن پکڑئے اور وہاں کے کرتا دھرتا کی مرضی کا چڑھاوا پیش کیجئے اور پھر دیکھئے چڑھاوے روپی دان کی غیبی طاقت۔ آپ دو گھنٹہ کے بجائے پانچ منٹ میں خفیہ راستے سے درشن کر فرصت پا جائیں گے۔ سنیما کا ٹکٹ ہو، ریل گاڑی کا ریزوریشن ہو، بجلی کا بل ہو، ٹیلی فون کا کنکشن ہو یا منتری جی سے ملاقات کرنا ہو۔ اگر آپ منھ مانگا دان دینے کی سکت رکھتے ہیں تو لائن لگانے کی ضرورت نہیں۔ بر خلاف اس کے اگر ایسا نہیں ہے تو ڈاکٹر کی کلینک سے لے کر شمشان گھاٹ تک آپ کی زندگی لائن ہی لائن میں کٹے گی۔
اگر آپ اپنے بچہ کا کسی اسکول میں داخلہ کرانا چاہتے ہیں اور داخلہ نہ ہو رہا ہو۔ فوراً دان کا تیر بہدف نسخہ استعمال کیجئے۔ داخلے کی اطلاع گھر بیٹھے مل جائے گی۔ اسکول کے ٹیچر کو ٹیوشن کے نام پر ۸/ماہ تک دان دیتے رہئے اور بچے کے رزلٹ سے بے فکر ہو جائیے کامیابی تو قدم چومے گی ہی۔ اگر آپ دان کی ان خصوصیتوں سے واقف ہیں تو آپ کو زندگی میں کوئی پریشانی نہ ہوگی لیکن شرط وہی پرانی دان اپنی مرضی کا نہیں لینے والے کی مرضی کا ہو تب ہی پھل آپ کی مرضی کا ہو گا۔
اب تو کھلے عام ڈونیشن کی بات ہوتی ہے انجینئرنگ کے لئے داخلہ کا معاملہ ہو یا میڈیکل میں داخلے کا۔ یا کسی دوسرے تربیتی کورس میں داخلہ کا مرحلہ ہو اگر آپ طے شدہ دان کی رقم دیں تو ہر کام آسان ورنہ ”سیٹ خالی نہیں“ کا بورڈ دکھا دیا جائے گا۔ نوکری چاہئے، چھوکری چاہئے، ہیروئن چاہئے، براؤں شوگر چاہئے، شراب چاہئے، شباب چاہئے، مکان چاہئے، کچھ بھی چاہئے فیس روپی دان دیجئے آپ کی مراد بر آئے گی۔ اگر آپ نے اپنی صلاحیت، ایمانداری، وفاداری، خلوص پر بھروسہ کرکے اپنا حق پانے کی بات سوچی تو پھر آپ اپنا حق پانے کے لئے انتظار کی لائن میں رہئے اور یہ انتظار عمرِ خضر پاکر بھی انتظار ہی رہے گا۔ اس انتظار میں آپ کی ساری خوبیوں کو یہ برائی دیمک کی طرح چاٹ کر اس طرح کھوکھلا کر دے گی کہ آپ انتظار کے لئے کھڑے بھی نہ رہ پائیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ ٹوٹ کر گر جائیں گے۔ تب یہ بے حس دان دینے اور لینے والے آپ کو روند کر آگے نکل جائیں گے اور آپ کو کراہنے کا موقع بھی نہ ملے گا۔
اگر آپ اس دان کو رشوت سمجھتے ہیں اور دان دینے والے بننا نہیں چاہتے تو پھر آپ اتنی ہمت تو کر ہی لیجئے کہ آپ دان لینے والے بن جائیں۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ آپ رشوت دینے سے تو بھاگتے رہے مگر رشوت لے کیوں رہے ہیں تو فوراً الفاظ کی جادوگری دکھائیے۔ جواب دیجئے رشوت کیسی رشوت؟ میں تو انسانیت، محبت واخوت اور مساوات میں یقین کامل رکھتا ہوں رشوت کیسے لے سکتا ہوں اگر کوئی شخص انسانی ہمدردی میں نذرانہ پیش کرتا ہے تو اسے قبول کر میں اس پر احسان کرتا ہوں اس میں برائی کیا ہے۔ اگر آپ اتنا بھی نہیں کر سکتے تو پھر اپنے لئے کسی جنگل میں ٹھکانہ ڈھونڈ لیں کیونکہ جنگل کے حیوان اس حیوانِ ناطق سے کم خطرناک ثابت ہوں گے۔
منظور پروانہ
چکن شاپی، نظیر آباد، لکھنؤ