امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ امن معاہدے سے متعلق اپنی صدارتی مدت ختم ہونے تک کسی نمایاں پیش رفت کی توقع نہیں کرتے ہیں۔البتہ انھوں نے تنازعے کے دو ریاستی حل کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی شانہ بشانہ دو ریاستوں میں امن سے رہ سکتے ہیں۔
وہ ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس میں طلبہ اور اساتذہ کے ایک اجتماع میں تقریر کررہے تھے۔انھوں نے کہا کہ وہ آیندہ سال جنوری میں صدارت کا عہدہ چھوڑنے کے بعد مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے کام کرتے رہیں گے۔
صدر اوباما نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ ان کی اور دوسرے عہدے داروں کی کوششوں کے باوجود ان کے دور صدارت میں عشروں پر محیط پرانے تنازعے کے حل کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
امریکی صدر نے اپنی تقریر میں کہا:”یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا کہ میں اس کو کرسکتا تھا۔مجھے اس کی بھی توقع نہیں ہے کہ یہ سب کچھ آیندہ نو ماہ میں ہوجائے گا۔یہ ساٹھ سال سے زیادہ عرصے پرانا مسئلہ ہے اور یہ آیندہ نو ماہ میں حل ہونے نہیں جارہا ہے”۔
ان کے اس بیان سے قبل ایسی اطلاعات منظرعام پر آئی ہیں کہ ان کی انتظامیہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے ایک اور کوشش کرنا چاہتی ہے۔ اوباما انتظامیہ اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے حل اور قیام امن کی کوششوں میں دو مرتبہ ناکام ہوئی ہے۔اب وہ تنازعے کے دو ریاستی حل کو بچانے اور زندہ رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔
صدر اوباما نے بھی اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ”ایک ریاستی حل یا منقسم حکومت قسم کے فارمولے پر بات کی جارہی ہے۔میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آیا اس سے استحکام آئے گا کیونکہ اس وقت تو دونوں عوام میں بہت گہرا عدم اعتماد پایا جارہا ہے۔اس صورت حال میں تو دو ریاستی حل ہی بہتر رہے گا اور میں اس میں یقین جاری رکھوں گا۔اب یہ وقت کے ساتھ حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے”۔