اسرائیل کے بائیکاٹ کی تحریک فرانس سمیت پورے یورپ میں زور پکڑتی جارہی ہے اور فرانس کی حکومت نے صیہونی حکومت کے دباؤ پر اس تحریک کی سرگرمیوں پر پابندیاں لگانا شروع کر دی ہیں۔ بی ڈی ایس ایسی تحریک ہے جس کے نام سے آج کی دنیا میں تقریبا سب واقف ہیں اور دنیا میں اسرائیل کے بائیکاٹ اور پابندیوں کے نام سے مشہور ہے
اس تحریک کے ارکان یورپ میں ہر جگہ فعال ہیں اور وہ جہاں بھی ہوتے ہیں مختلف طریقوں سے لوگوں کو اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ترغیب دلاتے ہیں۔ ایک فرانسیسی شہری کا کہنا ہے کہ”اسرائیل کے عوامی بائیکاٹ کی تحریک اس نسل پرست حکومت کو ختم کرسکتی ہے۔”
یورپی ممالک میں فرانس ایک ایسا ملک جہاں اسرائیل کے بائیکاٹ کی اس تحریک کو پابندیوں کا سامنا ہے لیکن اس کے باجود یہاں اس کی سرگرمیاں سب سے زیادہ بھی ہیں اور موثر بھی، کیونکہ اس تحریک کے ارکان عوام کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں یعنی اسرائیل میں تیار ہونے والی مصنوعات کے بائیکات کی ترغیب دلانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔کبھی سپر مارکیٹوں میں تو کبھی اجتماعات اور مظاہروں میں۔
ایک فرانسیسی خاتون نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ” ہمارے ملک فرانس کو اسرائیل نے ہائی جیک کر رکھا ہے، عدالتوں ، ذرائع ابلاغ یہاں تک ایوان صدر جیسے کلیدی اداروں کو بھی، ہم تو ذلیل ہوکے رہ گئے ہیں، میں اسرائیل کا بائیکاٹ کرتی ہوں اور اس کی بنائی کوئی چیز نہیں خریدتی”
فرانس میں اورنج ٹیلی کمیونی کیشن اور ویولیا ٹرانسپورٹ جیسی کمپنیوں نے جون دوہزار پندرہ میں اسرائیل کے ساتھ تعاون ختم کردیا لیکن فرانس کی حکومت نے اسرائیل کے دباؤ میں آکر بائیکاٹ تحریک کے خلاف پابندیاں لگانا شروع کردی ہیں۔
ایک فرانسیسی شہری نے اسرائیل کے بائیکاٹ کی تحریک کے خلاف حکومت کے اقدامات پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ” قانون کے تحت فرانس میں اسرائیل کے بائیکاٹ کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا قانون نہیں، یہ انتہائی شرمناک ہے کہ فرانس نے اپنی غلط پالیسیوں سے ہر چیز کو مذاق بنا لیا ہے۔”
اس تحریک کے قیام کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن اس کے اقدامات نے اسرائیل کی عمر سے زیادہ اپنا اثر دکھایا ہے۔ بائیکاٹ تحریک میں شریک ایک فرانسیسی خاتون کا کہنا ہے کہ ” ایک وقت تھا جب صیہونی اور ان کے حامی ہمارا مذاق اڑایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ تم لوگ اسرائیل کا بائیکاٹ کر ہی نہیں سکتے لیکن آج ہم اس مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں کہ صیہونیوں کو ہم سے خطرہ محسوس ہونے لگا ہے۔” دباؤ اور دھمکیوں سے انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت بائیکاٹ تحریک سے کس قدر خوفزدہ اور پریشان ہے۔