وہائٹ ہاؤس میں صدر اوباما کی انتظامیہ میں 6 مسلمان کام کرتے ہیں۔ ہم اپنے قارئین اور ناظرین کے لیے ایک منفرد سلسلے کا آغاز کررہی ہے جس میں امریکی وہائٹ ہاؤس میں فرائض سرانجام دینے والے مسلمان اہل کاروں سے ملاقات کرائی جائے گی۔ اس سلسلے کی پہلی ملاقات خاتون اہل کار رومانا احمد کے ساتھ ہے جو امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر بن روڈز کی مشیر ہیں۔ آئندہ دنوں میں ہماری ویب سائٹ پر صدر اوباما کی انتظامیہ میں کام کرنے والی جن دیگر پانچ مسلمان شخصیات کے بارے میں تفصیلات نشر کی جائیں گی.. ان میں بعض شخصیات قومی سلامتی کونسل میں حساس منصبوں پر ہیں اور دیگر شخصیات امیگریشن، قانونی مشاورت کے دفاتر یا سائنس وٹکنالوجی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد کہ وہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں امریکا میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی عائد کردیں گے… صدر باراک اوباما معاشرے کی خدمت میں مسلمانوں کے کردار کو واضح کرنے کے حوالے سے امریکیوں سے خطاب پر مجبور ہوگئے۔ انہوں نے رواں سال فروری میں بالٹیمور کی ایک مسجد کا دور کر کے تمام لوگوں کو اہم پیغام پہنچا دیا.. یہ صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد اوباما کا امریکا میں کسی بھی مسجد کا پہلا دورہ تھا۔
بہت سے لوگوں کے نزدیک ٹرمپ کا بیان مسلمانوں کے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطے کی تصویر راسخ کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوگیا… اور مخلتف سروے رپورٹوں کے مطابق تقریبا 66 فی صد ریپبلکن، مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کے حوالے سے ٹرمپ کے حامی ہیں۔
ادھر وہائٹ ہاؤس نے مسلمانوں کے کردار کو سراہا ہے اور صدر اوباما کا کہنا ہے کہ وہ مسلح افواج میں بطور امریکی شہری خدمات سرانجام دیتے ہوئے گراں قدر قربانیاں پیش کررہے ہیں اور ہر امریکی کے امن و امان کو یقینی بنانے اور اس کا دفاع کرنے کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں.. جس کسی کو بھی اس حوالے سے شکوک وشبہات ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ آرلنگٹن میں فوجی قبرستان کا دورہ کرلے جہاں اسے امریکا کے دفاع میں اپنی جانیں گنوا دینے والے مسلمان فوجیوں کے نام نظر آجائیں گے۔
امریکی آئین کے مطابق کسی بھی سرکاری یا ذاتی دستاویز میں مذہب کا خانہ رکھنے کی ممانعت ہے۔ اس کی وجہ سے مختلف وزارتوں میں خدمات سرانجام دینے والے مسلمانوں کی صحیح تعداد معلوم کرنا ایک مشکل امر ہے۔ تاہم یہ نمونہ جو ہم آئندہ دنوں میں پیش کریں گے.. مسلمانوں کی شرکت کے حجم کے بارے میں ہمیں ایک آئیڈیا دے گا.. جہاں ہم لبنانی، مصری، صومالی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی نژاد امریکیوں کو بطور ماڈل پیش کریں گے۔ یہ تمام لوگ امریکی معاشرے کے ایک بنیادی جزء کی حیثیت سے وہائٹ ہاؤس میں کام کررہے ہیں.. ایک عظیم ریاست کے لیے جس نے تارکین وطن مہاجرین کی کوششوں اور اہلیت سے ترقی منازل طے کیں.. ان میں مسلمان بھی ہیں جنہوں نے اس ملک کو آراستہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
رومانا احمد قومی سلامتی کے امور کے نائب سربراہ بن روڈز کی مشیر ہیں اور قومی سلامتی کونسل میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ ماضی میں وہ وہائٹ ہاؤس میں “پبلک انگیجمنٹ” کے دفتر سے بھی وابستہ رہیں اور اس سے پہلے صدارتی خط و کتابت کے دفتر میں تربیت حاصل کرنے والی اہل کار کی حیثیت سے کام کرچکی ہیں۔ بنگلہ دیشی نژاد رومانا امریکی ریاست میری لینڈ میں پیدا ہوئیں اور وہیں پروان چڑھیں۔
رومانا کا کہنا ہے کہ انہیں سیاست یا حکومت میں کام کرنے سے کوئی شغف نہیں تھا.. اکثر امریکی نوجوانوں بالخصوص مسلمانوں کی یہ ہی سوچ ہوتی ہے اس لیے کہ وہ حکومت کو بیوروکریسی اور غیرمؤثر خیال کرتے ہیں۔ تاہم 2008 میں یہ سوچ اس وقت یکسر تبدیل ہوگئی جب صدر اوباما نے صدارتی انتخابات کے لیے نامزد ہوکر امریکی نوجوانوں بالخصوص مسلم اقلیت کے لیے آنے والی تبدیلی کے حوالے سے امید کا پیغام دیا۔
رومانا نے اس تبدیلی کا حصہ بننے اور اس میں شریک ہونے کا عزم کیا۔ جون 2009 میں انہوں نے صدارتی خط و کتابت کے شعبے میں بطور رضاکار کام کرنا شروع کیا۔ رومانا کا کہنا ہے کہ “یہاں رہ کر جو بات میں نے سیکھی وہ یہ تھی کہ وہائٹ ہاؤس کو امریکیوں کا مقام بلند کرنے پر کتنی زیادہ قدرت حاصل ہے.. اسی طرح عام لوگوں کو ایسے طریقے سے منظم کرنے پر جو دوسرے نہیں کرسکتے”۔
زندہ دل اور توانا رومانا فخریہ طور سے حجاب پہنتی ہیں اور ان کے چہرے پر سجی ہر دم مسکراہٹ شدید دباؤ میں بھی غائب نہیں ہوتی.. وہائٹ ہاؤس میں پبلک انگیجمنٹ کے آفس میں کام کرنے کے تجربے کے حوالے سے رومانا کا کہنا ہے کہ وہ کبھی ایک مسلمان امریکی ہونے کی سوچ تک محدود نہیں رہیں بلکہ انہوں نے ہمیشہ تمام امریکیوں کے لیے سماجی خدمت پیش کرنے کا خیال کیا۔ بعد ازاں رومانا کا مسلم شہری تنظیموں کے ساتھ رابطہ پیدا ہوا۔ وہائٹ ہاؤس کی سالانہ افطار پارٹی کے موقع پر اداروں اور مسلم کمیونٹی کے رہ نماؤں کو دعوت دینے کے علاوہ پارٹی میں صدر کی میز پر بٹھائے جانے والے مسلم نوجوانوں کے انتخاب میں بھی رومانا کا اہم کردار رہا۔ رومانا صدر اوباما کی انتظامیہ کی شکرگزار نظر آتی ہیں جس نے رومانا کے خیال میں انہیں اہم معاملات میں اپنی رائے کے اظہار پورا موقع فراہم کیا۔
غالبا اہم ترین ذمہ داری جس پر رومانا نے کام کیا وہ صدر اوباما کے بالٹیمور مسجد کے دورے کی تیاری اور ایسی ہدایات کی فراہمی تھی جن کو صدر کے خطاب میں شامل کیا جاسکتا ہو۔ جب رومانا سے امریکا میں کسی بھی مسجد کے دورے میں صدر کی جانب سے سات برس کی تاخیر کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ : مسلمانوں کے خلاف الزامات کی روشنی میں یہ وقت دورے کے لیے زیادہ مناسب تھا۔
رومانا خود کو “حجابی” یعنی حجاب پہننے والی کا نام دیتی ہیں۔ حجاب پہننے کی وجہ سے درپیش کسی بھی امتیازی سلوک کے بارے میں رومانا کا کہنا تھا کہ انہوں نے گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد آٹھویں جماعت سے حجاب پہننے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد انہیں کافی تنگ کیا گیا، ان پر جملے کسے گئے یہاں تک کہ ان کے چہرے پر تھوکا بھی گیا مگر ان میں سے کسی چیز نے بھی ان کو متاثر نہیں کیا بلکہ آگے بڑھنے کے لیے مزید ہمت اور طاقت فراہم کی۔
جہاں تک حجاب کے ساتھ وہائٹ ہاؤس میں پہنچنے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے رومانا کو کسی امتیازی سلوک کا نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ اس کے برعکس انہیں اپنی قدر و منزلت کا احساس ہوا جیسا کہ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے اہل کار اہم موضوعات پر ان کی رائے لینے کے لیے ٹھہر جاتے تھے کیوں کہ وہ مسلمان ہیں۔
رومانا کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے ساڑھے تین سال قبل وہائٹ ہاؤس کے مغربی ونگ (صدر کے دفتر) میں کام کرنا شروع کیا تو انہیں اس وقت یقین نہ آیا کہ ایک حجاب پہننے والی لڑکی اس جگہ پہنچ سکتی ہے۔ پہلے پہل انہیں حجاب کی وجہ سے احساس ہوتا تھا کہ وہ کچھ مختلف ہیں۔ تاہم رومانہ کو ملنے والے اعتماد اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے اچھے رویے نے ان کے ذہن سے یہ اثر زائل کردیا.. یہاں تک رومانا کے ڈائریکٹر بن روڈز نے انہیں صدر اوباما کے سامنے کھڑے ہونے کا موقع دیا جس پر وہ ان کی شکر گزار ہیں۔
رومانا وہائٹ ہاؤس کا دورہ کرنے والے اداکار ایڈم اسکوٹ کے ساتھ اپنی ملاقات کو یاد کرتی ہیں جس میں امریکی اداکار نے پہلے ان کے خاندانی پس منظر اور حجاب پہننے کے حوالے سے سوالات کیے اور اس کے بعد یہ تبصرہ کیا کہ “میں چاہتا ہوں کہ میری بیٹی بڑی ہو کر آپ جیسی بنے”۔
رومانا نے گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد اسکول میں سب و شتم کا نشانہ بننے پر بھی اپنی مسلم شناخت کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ وہ باور کراتی ہیں کہ چیلنج ہمیشہ اپنے ساتھ مواقع بھی لاتا ہے… اور انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ وہائٹ ہاؤس میں کام کریں گی یا دنیا کی سپر پاور کے سربراہ اوباما کے اتنے قریب اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ جیسے صدارتی امیدواروں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز خطابوں کی نئی لہر کے بیچ… رومانا خیال کرتی ہیں کہ مسلم کمیونٹی کے کردار اور اہم خدمات میں اس کے پیش پیش رہنے کے بارے میں بلند آواز سے تذکرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
رومانا نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کے ساتھ اپنی ملاقات کا اختتام ایک سال قبل عالمی سطح پر نوجوان قیادت اور موجدین (اختراع کنندگان) کے اجلاس کے ذکر پر کیا (یہ اجلاس وہائٹ ہاؤس کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا)۔ رومانا نے بتایا کہ اجلاس میں شریک ایک فلسطینی خاتون نے ان سے سوال کیا کہ کیا وہ وہائٹ ہاؤس میں کام کرتی ہیں؟ اور کیا انہیں حجاب پہننے کی اجازت ہے؟.. رومانا کے مطابق اس فلسطینی خاتون نے یہ سوال دو مرتبہ دہرایا کہ : کیا آپ واقعی میں وہائٹ ہاؤس میں کام کرتی ہیں یا کسی پڑوس کی عمارت میں؟
اس حیرانی نے رومانا کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ امریکی مسلمانوں کا کردار دو طرفہ راستہ ہے۔ پہلے تو امریکیوں کو ان (مسلمانوں) کے کردار کے حوالے سے قائل کیا جانا چاہیے اور پھر انہیں (مسلمانوں کو) چاہیے کہ وہ بطور امریکی سفیر عرب اور اسلامی دنیا میں اپنا کردار متعارف کرائیں۔ رومانا کا کہنا ہے کہ “ہم کوئی مثالی ریاست نہیں ہیں.. مگر ہم مل کر مربوط اتحاد بنانے کی خواہش رکھتے ہیں… اور یہ ہی امریکی کامیابی کا راز ہے”۔