سعوی ولی عہد شہزادہ محمد بن نایف نے باور کرایا ہے کہ عرب دنیا اس وقت خطرناک سیکورٹی چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے جن کا پورے عزم اور طاقت کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بات تیونس میں عرب وزراء داخلہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ “ان چیلنجوں کی کمان شرپسند بزدل عناصر کے ہاتھ میں ہے جن کا مقصد عرب ممالک کو غیرمستحکم کرنا، ان کے وجود کو خطرے میں ڈالنا، ان کے اتحاد اور یکجہتی کو پارہ پارہ کرنا، ان کی دولت پر قبضہ کرنا اور عرب دنیا کے شہریوں کو غربت، بھوک اور بیماری کے گورکھ دھندوں میں پھنسانا ہے۔ بعض عناصر مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو اپنے مقاصد پورا کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں جب کہ بعض عناصر سیاسی اور اقتصادی بنیادوں پر عوام میں اشتعال پیدا کر رہے ہیں”۔

شہزادہ محمد بن نایف نے واضح کیا کہ ” اگر ان چیلنجوں کا سامنا پرعزم اور فیصلہ کن انداز سے نہ کیا گیا تو خدانخواستہ سب کو اس کے تکلیف دہ نتائج بھگتنا ہوں گے… اپنی قیادت اور عوام کے سامنے ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے”۔

سعودی ولی عہد نے عرب دنیا کے سیکورٹی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ “مربوط تعاون کے ذریعے ان واقعات کا مقابلہ کریں جو مختلف عرب ممالک میں امن و امان کی صورت حال پر اثر انداز ہوتے ہیں”۔

سعودی ولی عہد جو عرب وزراء داخلہ کی کونسل کے اعزازی سربراہ بھی ہیں.. اپنے ملک کے وفد کی قیادت کرتے ہوئے عرب وزراء داخلہ کے 33 ویں اجلاس میں شرکت کے لیے منگل کی شب تیونس پہنچے تھے۔

دوسری جانب پیرس میں صدارتی محل نے اعلان کیا ہے کہ فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند جمعہ کی دوپہر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن نایف کا سرکاری دورے پر آمد کے سلسلے میں استقبال کریں گے۔ فرانس کے سرکاری ذرائع دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے پیش نظر اور تمام مسائل کے حوالے سے دونوں ملکوں کی جانب سے “مزید مشاورت اور تعاون” کی روشنی میں شہزادہ محمد کے اس دورے کو “انتہائی اہمیت کا حامل” قرار دے رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیرس میں شہزادہ محمد بن نایف کا بطور “ایک دوست ملک کے ولی عہد جس کے فرانس کے ساتھ مضبوط اسٹریٹجک تعلقات ہیں” پر تپاک استقبال کیا جائے گا… ساتھ ہی ساتھ وزیر داخلہ کی حیثیت سے بھی ان کی آمد کا خیرمقدم کیا جائے گا اس لیے کہ وہ “دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم ساتھی ہیں” وہ دہشت گردی جس کا سامنا دونوں ملکوں کو ہے اور وہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔

عربی روزنامے “الشرق الاوسط” کے مطابق فرانسیسی ذرائع کا کہنا ہے کہ پیرس حکومت “فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان امن عمل کے سلسلے میں سعودی عرب کی مدد اور کردار کی وجہ سے مملکت کو بہت اونچا مقام دیتی ہے.. بالخصوص ریاض حکومت نے 2002 میں بیروت کے عرب سربراہ اجلاس میں جو “عرب منصوبہ” پیش کیا تھا وہ سیاسی منظرنامے میں سعودی عرب کے حجم اور اس کے رسوخ کی دلیل ہے”۔

فرانس آئندہ ماہ پیرس میں ایک وسیع بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ امن کے حوالے سے اپنے منصوبے کے لیے میدان تیار کر سکے۔