سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ ان کا ملک شامی عوام کی امنگوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔
انھوں نے یہ بات روسی صدر ولادی میر پوتین سے ٹیلی فون پر تفصیلی گفتگو کے بعد کہی ہے۔ صدر پوتین نے انھیں امریکا اور روس کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی کے سمجھوتے کی تفصیل سے آگاہ کیا ہے۔
شاہ سلمان نے بعد میں ایک بیان میں کہا کہ وہ شامی تنازعے کا جنیوا اوّل اعلامیے کے مطابق سیاسی حل چاہتے ہیں اور اس کی حمایت کریں گے۔ واضح رہے کہ 2012ء میں سوئس شہر میں طے پانے والے اس چھے نکاتی اعلامیے میں شام میں تشدد کے خاتمے اور ایک عبوری حکومت کے قیام کی ضرورت پر زوردیا گیا تھا لیکن شامی صدر بشارالاسد کی حکومت نے اس سمجھوتے کی توثیق نہیں کی تھی۔
خادم الحرمین الشریفین نے کہا کہ جنگ بندی کے دوران تمام حاجت مند شامیوں تک امداد پہنچنے کی ضمانت دی جانی چاہیے۔قبل ازیں روسی صدر ولادی میر پوتین نے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے بدھ کے روز ٹیلی فون پر شام کی صورت حال پر بات چیت کی ہے اور انھیں امریکا اور روس کے درمیان شام میں جنگ بندی سے متعلق طے پائے سمجھوتے کی تفصیل سے آگاہ کیا ہے۔
کریملن کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ”سعودی عرب کے فرمانروا نے اس سمجھوتے کا خیرمقدم کیا ہے اور روس کے ساتھ مل کر اس کو عملی جامہ پہنانے پر آمادگی ظاہر کی ہے”۔ دونوں لیڈروں نے اس سلسلے میں روابط جاری رکھنے سے اتفاق کیا ہے۔
کریملن کے بیان کے مطابق روسی صدر نے اپنے شامی ہم منصب بشارالاسد سے بھی جنگ بندی کے اس سمجھوتے سے متعلق بات چیت کی ہے اور انھوں نے اس کو قبول کرنے اور اس کی حمایت کا یقین دلایا ہے۔شامی صدر کا کہنا تھا کہ اس سمجھوتے سے تنازعے کی سیاسی حل کی راہ ہموار ہوگی۔ولادی میر پوتین نے ایرانی قیادت سے بھی اس حوالے سے بات چیت کی ہے۔
درایں اثناء ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ شامی کرد ملیشیا کو بھی داعش اور القاعدہ سے وابستہ گروپ النصرۃ محاذ کی طرح جنگ بندی سمجھوتے سے باہر رکھنا جانا چاہیے اور شامی کردوں پر حملے جاری رہنے چاہییں۔
امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے منگل کے روز خبردار کیا تھا کہ اگر شام میں لڑائی جاری رہتی ہے اور اس کا جلد خاتمہ نہیں ہوتا تو پھر شام کی یک جہتی اور سالمیت کو برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔شامی حکومت اور حزب اختلاف نے گذشتہ روز امریکا اور روس کی جانب سے اعلان کردہ جنگ بندی کے سمجھوتے کو قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم شامی حزب اختلاف کی اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی نے اسد حکومت اور روس سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ شہریوں پر فضائی حملے اور توپ خانے سے بمباری بند کردیں ،قیدیوں کو رہا کریں اور باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں کی ناکا بندی ختم کردیں۔اس کے بہ قول شامی فورسز اور اس کے اتحادیوں نے اس وقت شام میں اٹھارہ علاقوں کا محاصرہ کررکھا ہے۔