کیا آپ ایک سچے وطن پرست ہیں؟
آپ اپنی وطن پرستی ثابت کرنے کے لئے کیا کچھ کرسکتے ہیں؟
آپ کا جواب ہوگا ”وطن کے لئے جان کی بازی لگاسکتے ہیں،وطن کے دشمنوں کو گولی مارسکتے ہیں اور وقت پڑا تو یہ گولی مسکراتے ہوئے اپنے سینے پر بھی کھا سکتے ہیں،وغیرہ وغیرہ“۔مگر آپکا یہ ایثار اور جذبہ ئ قربانی آپکی حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے ناکافی ہے۔آپکا یا آپکے بزرگوں کا ایثار آپکی وطن پرستی کی ضمانت نہیں بن سکتاکیونکہ آپ کے بزرگ اپنے ایثار و قربانی کا عوض پاکستان کی شکل میں لے چکے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ آپ کو اپنی وطن پر ستی کا بڑا غرہ ہو،اپنے ملک کے آئین اور سیکولر نظام پر یقین ہو۔مگر یہ آپکا زعم ناقص اور خام خیالی بھی ہوسکتی ہے۔آ پ کہیں گے یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ آپ کا مافی الضمیر آپ سے بہتر اور کون سمجھ سکتاہے۔مگر حضور اس وطن پر ستی اور حب الوطنی کا کوئی فائدہ نہیں ہے جسکا آپ مظاہرہ نہ کرسکتے ہوں۔کیونکہ سچا محب وطن ہونے کے لئے اسکا راگ الاپنا ضروری ہے۔اسکے بعد بھی آپ قطعی مطمئن نہ ہوں کہ آپ کی وطن پرستی تسلیم کرلی جائیگی۔اس اعزاز کے حصول کے لئے کچھ نام نہاد ملک پرست بھگوا تنظیموں سے وطن پرستی کی توصیفی سند حاصل کرنا ضرور ی ہے۔اس سند کے حصول کے لئے کچھ قواعد و ضوابط پر عمل کرنا ضروری ہے۔عمل نہ کرنے کی صورت میں آپ پر”وطن مخالف“”غدار“ یا ”دہشت گرد“ جیسے الزامات عائد کرکے ملک بھر میں احتجاجات ہوسکتے ہیں،عدم برداشت کا ماحول پیدا کیا جاسکتاہے، اگر کسی صنعتی ادارے سے وابستہ ہیں تو آپکا بزنس متاثر ہوسکتاہے اور اگر اداکار ہیں تو آپکی اداکاری سے سجی فلم کی مخالفت کرکے آپکے پروڈیوسر کو کروڑوں کا نقصان پہونچایا جاسکتاہے۔اگر آپ ایسی حرکتوں کو ناپسند کرتے ہیں تو بیشک اداکاری کے لئے ہالی وڈ جاسکتے ہیں۔ بہر حال اپنی وطن پرستی ثابت کرنے کے لئے اور اگر ثابت کرچکے ہیں تو اس کی بقا کے لئے قدم قدم پر محتاط رہنا ضروری ہے۔
اگر آپ نے ابتک وطن پرستی اور حب الوطنی کی سند نہیں لی ہے تو فورا اقدام کریں کہیں تاخیر نہ ہوجائے اس صورت میں آپکی جان اور مال کی ملک میں کوئی ضمانت نہیں لے سکتا۔کب کس تنظیم کے متشدد اراکین آپ سے وطن پر ستی کا شناختی کارڈ طلب کرلیں اور عدم فراہمی کی صورت میں آپکی جان و مال اور اہل و عیال بھی محفوظ نہ ہوں۔اس شناختی کارڈ اور توصیفی سند کے حصول کی چند شرطیں ہیں آپ براہ کرم نوٹ کرلیں تاکہ مشکل پیش نہ آئے۔شرطین مندرجہ ذیل ہیں۔
آپکو آرایس ایس یا اسکی ہم نوا دوسری بھگوا تنظیموں کے پینل کے سامنے بلند آواز میں ”وندے ماترم“ گانا ہوگا۔اگر آپ وندے ماترم کی جگہ ”وطن تجھے سلام“ ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستا ں ہمارا“ اور ”وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہو“ جیسے دیش بھگتی کے گیت گنگاتے ہیں تو اس صورت میں آپکا جرم مزید سنگین ہوسکتاہے کیونکہ حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے آپ نے قومی زبان کا سہارا کیوں نہیں لیا اور جس زبان کے گیتوں کا انتخاب آپ نے کیاہے وہ اب پاکستان کی قومی زبان ہے یہ الگ مسئلہ ہے کہ اس زبان کی نشوو نما ہندوستان میں ہوئی اور آج بھی ہندوستا ن میں ہر ہندی فلم اور ہندی زبان کے ہر گیت میں اردو کے الفاظ موجود ہوتے ہیں۔ہوسکتاہے آپ پر الزام عائد کردیا جائے کہ اردو میں گانے کے لئے آپکو پاکستانی ایجنسیوں سے پیسے ملے ہیں۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اونچی آواز میں ”وندے ماترم“ کا نعرہ لگائیں تاکہ انہیں یقین آسکے۔
اگر آپ ”ہندوستان زندہ باد“ یا انقلاب زندہ باد“ کے نعروں پر یقین رکھتے ہیں تو فورا اس گناہ عظیم کے ارتکاب پر توبہ کریں۔کیونکہ یہ نعرے مخصوص طرز فکر کی ترجمانی کرتے ہیں۔اگر آپ ذات اور مذہب سے بالا تر ہوکر صرف ہندوستان کو اپنا ملک سمجھتے ہیں اور اس ملک میں رہنے والے ہر شخص کو ”ہندو“ جانتے ہیں تو پھر آپ کو ان نعروں کی جگہ دونوں ہاتھ اٹھاکر”بھارت ماتا کی جئے“ کا نعرہ لگانا ہوگا۔آپ کو علم ہونا چاہئے کہ بھارت ہندوستان کا قدیمی نام ہے اور یہی نام اب اس ملک کی شناخت کا ذریعہ بن کر رہیگا۔یہ الگ بات کہ جب عدالت سے ملک کے اصلی نام کے لئے رجوع کیاجاتاہے تو ہماری عدلیہ ملک کے تمام ناموں کو صحیح قرار دیتی ہے مگر شاید آپ بھول رہے ہیں کہ یہ تنظیمیں آئین اور عدلیہ سے بالاتر ہیں بلکہ انکی نگاہوں میں ”آئین ہند“ ناقص اور لائق ترمیم ہے۔آپکو ناگپور میں ترتیب شدہ آئین کو تسلیم کرتے ہوئے ”بھارت ماتا کی جئے“ کا نعرہ لگانا ہی ہوگا۔ اس سلسلے میں اگر آپ عدالت سے رجوع کرنا چاہتے ہیں تو محتاط رہیں کہ کب عدالتی احاطے میں ان تنظیموں سے وابستہ یا انکے ہم فکر وکلا ء آپ پر حملہ آور ہوجائیں۔بھلے ہی انکی تصویریں اور ویڈیوسی سی ٹی وی کیمروں میں قید ہوگئی ہو مگر ”نا معلوم افراد“ پر ہی مقدمہ درج کیا جائیگا اور میڈیا نامعلوم افراد کو ہی قصور وار ٹہرائیگا کیونکہ بھیڑکا کوئی چہرہ نہیں ہوتاہے لہذا اب دیگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ اس بے چہرہ بھیڑ سے بھی محتاط رہنا ضروری ہے۔اس سلسلے کی سب سے اہم بات آپ اپنے ذہن میں محفوظ کرلیں،وہ یہ کہ آپ اپنے وطن کے سیکولر آئین میں کتناہی یقین کیوں نہ رکھتے ہوں،اپنی جان سے زیادہ اپنے ملک کو عزیز سمجھتے ہوں اور اسکی ترقی اور بقاء و تحفظ کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیارہوں لیکن اگر آپ اپنی دھرتی کو اپنی ماں کا درجہ نہیں دسے سکتے تو آپ غدار ہیں اور اس ملک کی دھرتی کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک کی دھرتی پر جاکر بس سکتے ہیں جہاں دھرتی کو ماں کا درجہ نہ دیا جاتا ہو اورانسانوں کے خون سے ذات پات اور مذہب کے نام پر ہولی نہ کھیلی جاتی ہو ….کیا آپ تیار ہیں۔
اگر مذکورہ تمام مراحل آپ نے سر کرلئے ہیں تو سب سے دشوار مرحلے کے لئے کمر کس لیجئے۔کیا آپ ایک کسان ہیں۔زمیندار ہیں یا شہر میں بسنے والے ایک مہذب انسان ہیں۔خیرآپ جو بھی ہوں اس سے بحث نہیں۔مگر آپ جانور ضرور پالتے ہوں گے۔جی ہاں ایسے جانور جو آپ کو دودھ،گھی اورانڈے فراہم کرسکیں یا ایسے جانور جنہیں آپ ذبح کرکے کھانا پسند کرتے ہوں۔ اگر آپ شہر کے باشندے ہیں تو یہ جانور آپ کے گلی محلوں میں گھومتے پھرتے نظر آجائیں گے،کہیں مزبلے پر اونگھتے ہوئے دکھائی دینگے تو کہیں کوڑا کرکٹ کے ڈھیرمیں منہ مارتے ہوئے نظر آئیں گے مگر آپ انہیں جھڑکنے کی غلطی نہ کریں،انکا احترا م کریں یا خاموشی کے ساتھ شریفوں کی طرح سر جھکاکر اپنی منزل کی طرف بڑھ جائیے۔آپ کا متوقع سوا ل ہوگا کہ ایسا غیر منطقی عمل کیوں انجام دیا جائے؟ تو حضور ذرا آہستہ بولئے۔ کیا آپ نے جان لیاہے کہ کچھ جانوروں کو مذہبی تقدس عطا ہواہے اور اگر یہ تقدس ذرا بھی پامال ہوا تو انکے موت اور گوبر سے بھی زیادہ آپکا خون ارزاں ہوگا۔جی ہاں جانوروں کے پالنے پوسنے میں یہ احتیاط ضرور رکھیں کہ آپ نے کس جانور کا انتخاب کیاہے،ہوسکتا ہے جسے آپ جانور سمجھ رہے ہوں اس جانور کو انسانیت کی ماں ہونے کا شرف حاصل ہو۔اور ماں کے تقدس کی پامالی کی سزا دنیا میں صرف بہیمانہ قتل ہے۔اس جرم میں فقط آپ ہی نہیں آپ کے اہل خاندان اور اعزاء و احباب بھی قتل کئے جاسکتے ہیں خواہ وہ اسکے تقدس کی پامالی کے جرم میں شریک ہوں یا شریک نا ہوں۔ کیونکہ اس جانور کو صرف آپکی ہی نہیں پورے ملک کی ماں ہونے کا شرف حاصل ہے اور اسکے موت سے بنی ہوئی اشیاء آپکی غذا کا حصہ ہوں تو آپ صحت مند بھی رہ سکتے ہیں یہ جدید تحقیق ان تنظیموں کے توسط سے ہم تک پہونچ رہی ہے۔
ہماری ذمہ داری آپکی صحت و سلامتی پر نظر رکھنا ہے۔امید ہے آپ مذکورہ شرائط اور واجب ا لعمل احکامات کا پوارا خیال رکھیں گے اور ہمارے ساتھ مل کر ”بھارت ماتا کی جئے‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے زعفرانی لباس زیب تن کریں گے۔
عادل فراز
adilfaraz2@gmail.com
اس مضمون کے خیال مکمل طور نجی ہیں، اور اس میں درج باتوں کی نیوزپورٹل انسٹنٹ خبر ڈاٹ کام نہ تو حمایت کرتا ہے اور نہ ہی اس کے حق یا مخالفت میں اپنی رضامندی ظاہر کرتا ہے. اس مضمون کو لے کر آپکے خیالات کا بھی نیوزپورٹل خیرمقدم کرتا ہے