عبداللہ طارق سہیل

شام کی صورتحال عالمی حادثے کی طرف بڑھنا شروع ہو گئی ہے اور جنگ وہ موڑ مڑنے لگی ہے جس کی توقع چار ماہ پہلے تک نہیں ہو سکتی تھی ۔ ادھر رومن کیتھولک فرقے کے سربراہ پوپ فرانسس اور رشین آرتھوڈاکس کے پیشوا بطریق کرل کے درمیان کیوبا میں ملاقات ہوئی ہے۔ مسیحی دنیا کے ان دونوں فرقوں کی یہ ربط بندی کوئی ایک ہزار سال کی دوریوں کے بعد ہوئی ہے۔ کیا ان دونوں خبروں میں کوئی جوڑ نظر آتا ہے؟ بظاہر نہیں لیکن احادیث نبوی میں جو پیش گوئیاں کی گئیں ہیں انہیں دیکھیں تو تعلق نظر آنے لگے گا۔

شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ انہی پیش گوئیوں کے مطابق ہی ہو رہا ہے جن میں بتایا گیا تھا کہ شام وعراق دونوں میں خون بہے گا اور اتنی لاشیں بچھیں گی کہ پرندہ اڑتا چلا جائے گا، لاشوں سے بھرے میدان ختم نہیں ہوں گے۔ نئے اعداد وشمار کے مطابق مرنے والے شامیوں کی گنتی اب پانچ لاکھ کے ہندسے کو چھو رہی ہے اور ملک کی گیارہ فیصد آبادی ختم ہو چکی ہے۔ کون جانے یہ اعداد وشمار بھی اصل حقیقت سے کم ہی ہوں۔ پیش گوئیوں کے مطابق مسیحی دنیا کے 80 ملک شام میں قتل عام کریں گے۔ پروٹسٹنٹ فرقہ کیتھولک اور آرتھوڈاکس کے برعکس مرکزیت نہیں رکھتا۔ بے شمار ذیلی فرقے اور چرچ ہیں جن میں سے ہر ایک کا الگ پیشوا ہے لیکن شام کے اس معرکے کی قیادت اسی فرقے کے سیاسی چہرے کے پاس ہے۔ کیتھولک اور آرتھوڈاکس اتحاد کے بعد یہ گنتی 80 تک ہو جائے گی۔

روس کی مداخلت کے بعد خونریزی کی تیزی اور بڑھ گئی ہے۔ کل اس نے پھر حلب اور ادلب میں تین ہسپتال اور سکول اڑا دئیے۔ چار ماہ پہلے جب روس نے بمباری شروع کی تھی تو ابتداء میں داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن ان چند حملوں کے بعد اس نے بمباری کا رخ ہسپتالوں اور اسکولوں کی جانب کر دیا۔ اس دوران اس نے داعش کے کسی اڈے پر ایک حملہ بھی نہیں کیا۔ دس ہزار کے قریب عام شہری روسی بمباری سے ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں ایک تہائی بچے ہیں۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ روس کا ہدف داعش نہیں، شام کے شہری ہیں اور ترکی نے اسی لیے کہا ہے کہ روس شامیوں کی نسل کشی کر رہا ہے تاکہ شام میں صرف علوی لوگ باقی رہ جائیں، باقی مارے جائیں یا ملک چھوڑ جائیں۔

ایران پہلے ہی وسیع تر مداخلت کر چکا ہے جس کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا یہ اعترافی بیان شائع ہو چکا ہے کہ ان کے ملک کے دو لاکھ (اگرچہ اس گنتی میں مبالغہ ہے) رضا کار شام میں مصروف جنگ ہیں۔ یہ سارے رضا کار نہیں ان میں پاسداران انقلاب اور فوجی بھی ہیں۔ جن میں سے درجنوں کی لاشیں ہر ہفتے ایران پہنچ رہی ہیں۔ ایرانی فضائیہ بھی آگ برسا رہی ہے اور ایران کے جہازوں پر شامی ائیر فورس کے نشانات اتنی جلدی میں بنائے گئے ہیں کہ نیچے سے ایران کے نشان صاف نظر آتے ہیں۔ اس صورتحال میں ایران کا یہ بیان پر لطف ہے کہ ضرورت پڑی تو ایرانی فضائیہ شام روانہ کر دی جائے گی۔ وہ تو پہلے ہی ہے، بیان کا مطلب شاید یہ ہو گا کہ اب اس کے طیاروں پر رنگ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس کے بعد اب شام کا پڑوسی ملک ترکی بھی بلاواسطہ مداخلت پر مجبور ہو گیا ہے۔ امریکہ نے کردوں کو ترکی کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔ ترکی کی سرحد کے ساتھ ساتھ سارے کرد علاقے پر کرد فورس کا قبضہ ہے۔ جو امریکی نقشے کے مطابق ترکی کے کرد میں مداخلت کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس علاقے میں مذاحمت کاروں کے ہاتھوں سے نکل کر کافی رقبہ کردوں کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ ترکی نے اس صورتحال میں ”دفاعی جارحیت” کرتے ہوئے کرد باغیوں کے ٹھکانوں پر گولہ باری شروع کر دی ہے اور کرد فورس کا جواب دے رہی ہے۔ یوں سرحدی علاقوں میں شام کا تنازعہ پہلے ہی علاقائی جنگ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

امریکا نے کردوں کی حمایت میں بیان دیا ہے جس پر ترکی کو کہنا پڑا کہ امریکا صاف بتائے کہ وہ کردوں کے ساتھ ہے یا ترکی کے ساتھ۔ امریکا اور کتنا صاف بتائے۔ اس نے تو جو بتانا تھا بتا دیا۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہو گی کہ نیٹو کے رکن ملک ترکی پر روس نے حملہ کیا تو امریکا، ترکی کا ساتھ دے گا یا خاموش تماشائی بن کر روس کو یہ بتا دے گا کہ وہ ترکی کی سرکوبی کرے اور کردستان کی راہ ہموار کرے۔ ایک واضح ترین سگنل اسرائیل نے دیا ہے۔ اس نے پہلی بار صاف لفظوں میں اعلان کیا ہے کہ اب شام کو مذہبی اور مسلکی بنیادوں پر تقسیم کر دیا جائے۔ امریکا وزیر دفاع موشے یعلون کا یہ بیان بارش کا پہلا قطرہ سمجھے جسکے بعد شام کی تقسیم کا امریکی منصوبہ روس کے ہاتھوں پورا کرانے کی کوشش کی جائے گی۔

تقسیم کا نقشہ پہلے ہی سامنے آچکا ہے یعنی دمشق سے لطانیہ تک کی پٹی علوی کو دی جائے گی۔ شمال مشرق میں کردستان اور باقی علاقہ ایسا ملک جس کی سمندر تک رسائی نہ ہو لیکن اس پر شام کی سیکولر اپوزیشن (جس کی نمائندگی فری سیرین آرمی کر رہی ہے) کی حکومت ہو جو امریکا کی اتحادی ہو۔ بیرونی دنیا سے اس کا رابطہ اسرائیل کے زریعے ہو گا کیونکہ اس کی جنوبی سرحد اسرائیل اور اردن سے ملحق ہو گی۔ ایران اس نقشے کا حامی ہے لیکن اس ترمیم کے ساتھ کہ علوی ریاست کی سرحد عراق سے لگنی چاہیے جو امریکا کو منظور نہیں۔

سعودی عرب نے اس تنازعے میں اپنی جسمانی موجودگی ظاہر کرنے کا فیصلہ کر کے امریکا اور روس دونوں کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ اس کے طیارے ترک اڈوں پر پہنچ چکے ہیں۔ امریکا روس ایران اتحاد کے مقابلے میں سعودی عرب اوراور ترکی کا نسبتاً کمزور اتحاد بن چکا ہے لیکن اس اتحاد کی مداخلت نے امریکی نقشے کو پریشان کر ڈالا ہے۔ امریکا ان دونوں ملکوں کو سامنے سے وار نہیں کرے گا نیٹو میں دراڑ پڑ جائے گی اور روس کو یوکرائن کی اپنی مرضی سے تقسیم میں آسانی ہو جائے گی۔ امریکا کا انحصار اب پس پردہ ”گیمنگ” پر ہو گا۔ اس نے سوچا تھا کہ اب فوجی مروائے بغیر روس کے ذریعے ابتدائی ابتدائی مرحلے طے کر لیے جائیں لیکن ترکی اور سعودی عرب کی وجہ سے کھنڈت نظر آرہی ہے۔

شام کی تقسیم تو بظاہر طے ہے لیکن اس نئے عامل کی وجہ سے اس کی شکل بدل سکتی ہے۔ کیا امریکا ان دونوں ملکوں میں ”رجیم چینجینگ” کا فارمولا اپنائے گا لیکن اتنی جلدی حکومت بدلنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ امریکا بہت زیرک ہے اور بے پناہ وسائل بھی اپنی زیرکی پر عمل کرنے کے لیے اس کے پاس ہیں لیکن فی الحال تو ترکی اور سعودی عرب نے اسے سوچ میں ڈال دیا ہے۔ سامنے سے وہ آ نہیں سکتا اور سعودی عرب اور ترکی کا اتحادی بن کر آنا بھی اس کے لیے مشکل بلکہ نا ممکن ہے۔

تیسری طرف یہ بات بھی وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ بمباری کے لامتناہی سلسلوں کے باوجود شامی مزاحمت کو ختم کرنا بہت مشکل ہے۔ روس بھی اس مزاحمت سے خائف ہے اور اپنی فوج اتارنے کے لیے تیار نہیں۔ اگرچہ اس کے محدود تعداد میں فوجی بعض اڈوں پر موجود ہیں۔ صرف بمباری سے ”صفائی ”کرنا چاہتا ہے جو مشکل عمل ہے، اس لیے بھی کہ بمباری کی خبریں بھی روس کے اندر رائے عامہ کو متاثر کرنے لگی ہیں۔ چار ماہ پہلے 72 فیصد روسی عوام شام میں مداخلت کے پر جوش حامی تھے، اب دو روز پہلے سامنے آنے والے سروے کے مطابق ان کی تعداد کم ہو کر 59 فیصد رہ گئی ہے اور اس میں مزید کمی کے امکانات ہیں۔ ساتھ ہی روس کی معیشت بمباری کا عمل سال دو سال تک جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ پہلے ہی ترکی سے تنائو اور یورپی پابندیوں کے باعث وہاں دال کستوری کے بھائو بک رہی ہے۔

قتل عام کے لحاظ سے شام دوسرا افغانستان بن چکا ہے۔ افغانستان کے سوا سال بہ سال اتنی لاشیں کسی اور ملک میں کم ہی بچھی ہوں گی۔ لگتا ہے سیاسی نتائج کے اعتبار سے بھی شام دوسرا افغانستان بننے جا رہا ہے اگر نبوی پیش گوئیوں کا زمانہ عین یہی ہے تو سمجھئے یہ تباہی اصل بربادی کا عشر عشیر بھی نہیں اور پھر تو یہاں علاقے کا بھی نہیں، ساری دنیا کا فیصلہ ہو گا۔

بشکریہ الاربیہ ویب پورٹل