سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ایک مرتبہ پھر شامی حکومت کے سربراہ بشار الاسد کے رخصت ہونے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ایک جرمن اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں جو ہفتے کے روز شائع ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ بشار الاسد مستقبل میں شام کے حکمراں ہر گز نہیں ہوں گے اور روسی فوجی مداخلت اقتدار میں باقی رہنے میں ان کی مدد نہیں کرسکے گی۔
عادل الجبیر نے “Süddeutsche Zeitung” اخبار سے گفتگو میں باور کرایا کہ “مستقبل میں بشار الاسد ہر گز نہیں ہوں گے۔ اس میں تین ماہ بھی لگ سکتے ہیں اور چھ ماہ یا تین سال بھی مگر یہ شام میں ہر گز کوئی ذمہ داری نہیں سنبھال سکیں گے”۔
سعودی وزیر خارجہ نے پانچ سال سے جاری جنگ میں روس کی شرکت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ روس کی جانب سے شام میں شدید فضائی حملوں کے باوجود شامی عوام بشار الاسد کی حکومت کے سقوط کا مصمم ارادہ کرچکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شامی صدر کا اپنی فوج کی مدد کے لیے ایران، حزب اللہ اور عراق اور پاکستان سے شیعہ ملیشیاؤں کو بلانا کسی کام نہیں آیا۔ اور اب روس کو دعوت دی گئی ہے لیکن وہ بھی ان کی مدد نہیں کرسکے گا۔
عادل الجبیر سے “زمینی افواج کی موجودگی” کے ساتھ براہ راست بڑی مداخلت کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے امور اس وقت داعش کے خلاف امریکا کے زیر قیادت اتحاد کے رکن ممالک کے درمیان زیربحث ہے۔ انہوں نے کہا کہ ” اگر اتحاد نے شام میں داعش کے خلاف لڑنے کے لیے اسپیشل فورسز بھیجنے کا فیصلہ کیا تو سعودی عرب شرکت کے لیے تیار ہوگا”۔
یاد رہے کہ میونخ میں جاری امن کانفرنس کے دوران بڑی طاقتیں اس بات پر متفق ہوگئی ہیں کہ جب تک روس کی جانب سے داعش تنظیم کے سوا اپوزیشن کی دیگر جماعتوں پر بمباری نہیں روکی جاتی، اس وقت تک کسی امن معاہدے کو یقینی بنانا ممکن نہیں۔ تاہم روس نے بشار الاسد کی سپورٹ میں اپنے فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا۔ بشار الاسد پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ شام کا پورا کنٹرول واپس لینے تک لڑائی جاری رکھیں گے۔