“دیوار بغداد” کے نام سے پکارا جانے والا منصوبہ بڑی حد تک پراسراریت کا شکار ہے۔ اس منصوبے کے فیصلے نے سیاسی عمل میں شریک تمام فریقوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور پیچھے ان فریقوں کی امن و امان اور ذرائع ابلاغ سے متعلق بازگشتوں کو چھوڑ دیا۔ ان فریقوں میں سرفہرست خود “بغداد صوبے کی کونسل” ہے، جس کو اس بارے میں پورا علم ہونا چاہیے تھا تاہم ایسا نہیں ہوا۔
بغداد صوبے کی سیکورٹی کونسل کے نائب سربراہ محمد الربیعی کا کہنا ہے کہ “صوبے کی کونسل اور گورنر کو اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ اسی لیے ہم نے منصوبے کے پیچھے کارفرما “بغداد آپریشنز کمانڈ” ملاقات کی۔ اس ملاقات میں ہمیں باور کرایا گیا کہ دیوار بغداد … دارالحکومت کو دہشت گرد حملوں اور کار بم دھماکوں کے ساتھ ساتھ ایئرپورٹ اور اس سے ملحقہ علاقوں کو کاٹیوشیا راکٹوں سے نشانہ بنائے جانے اور دیگر مسلح سرگرمیوں سے بھی حفاظت کرے گی”۔
اس منصوبے کے لیے مختص کی گئی رقم کے حوالے سے الربیعی نے “العربيہ ڈاٹ نیٹ” کو بتایا کہ “بغداد کی انتظامی حدود کا احاطہ کرنا آسان کام نہیں۔ تاہم بغداد آپریشنز کمانڈ نے صوبے کی کونسل کو اس امر کی تصدیق کی ہے کہ وہ صرف منصوبے کی انجینئرنگ کا کام کر رہی ہے جب کہ فوجی سیکٹرز میں ہر سیکٹر خود کو سونپا گیا رقبہ مکمل کرے گا”۔
دیوار یا جیل ؟
جب بغداد کی صوبائی کونسل ہی لاعلم رہی تو کیا یہ بات قابل فہم ہوسکتی ہے کہ سیاسی عمل میں شریک دیگر فریق اس منصوبے کی جان کاری رکھتے ہوں؟
اس کا جواب سابق نائب وزیراعظم صالح المطلک کی زبانی آیا۔ انہوں نے باور کرایا کہ “دیوار بغداد کی تعمیر ملک کے لیے خطرہ ہے اور وہ اس کو تقسیم کر دے گی… قومی اتحاد کی اکثریت سے تشکیل پائی گئی حکومت کے زیرسایہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ آبادیاتی تبدیلی کا منصوبہ ہے۔ ہم یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ حکومت اس سلسلے میں غائب ہے، خندقوں کی کھدائی سیاست دانوں کے سامنے پیش کی جانی چاہیے ناکہ انفرادی شکل میں اور وہ بھی صرف میڈیا کے ذریعے سننے میں آ رہا ہے”۔
دوسری جانب امن و دفاع سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے رکن محمد الکربولی نے دیوار بغداد کے منصوبے پر جس کی نگرانی براہ راست بغداد آپریشز کمانڈ کر رہی ہے، اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “ہم دارالحکومت بغداد کی سیکورٹی میں اضافے کے حق میں ہیں، مگر اس سیکورٹی میں اضافہ الانبار یا بابل یا عراق کے کسی اور صوبے کے خلاف نہیں جانا چاہیے”۔ الکربولی نے خبردار کیا کہ ” ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ بغداد میں سیکورٹی خندق الانبار یا بابل صوبے کی اراضی کاٹ کر بغداد میں ملا دینے کے منصوبے پر عمل درامد کا آغاز ہو، جس طرح نینویٰ اور کرکوک میں بیشمرگہ کی خندق نے کیا۔ اس لیے بغداد اور الانبار دونوں کی آپرینشنز کمانڈ کو بغداد کی “سیکورٹی وال” کے اہداف اور مقاصد کی مل کر نگرانی کرنی چاہیے”۔
سیکورٹی خندق یا انتظامی چھاؤنیاں ؟
بہت سے عراقی حلقوں نے اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ دوسرے صوبے بھی اپنی خندقیں کھود کر علاحدگی کی فصیلیں بنانا شروع کردیں گے یہاں تک کہ عراق اپنی تقسیم کی تیاری میں انتظامی “چھاؤنیوں” میں تقسیم ہوجائے۔
سیکورٹی امور کے ماہر عراقی محقق ہشام الہاشمی نے دیوار کی تعمیر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “بغداد آپریشنز کمانڈ اس کی شمالی، مغربی اور جنوبی پٹی پر کنٹرول میں ناکام رہی ہے۔ ان علاقوں کو داعش کے ارکان کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر خونی دہشت گرد کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے”۔ منصوبے کی تفصیلات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ “خندق 3 میٹر چوڑی اور 2 میٹر گہری کھودی جائے گی اور خندق کے گرد راستوں کو ہموار کیا جائے گا۔ اس کے سیمنٹ کے بلاکس لگائے جائیں گے اور مقرر کردہ فاصلوں پر ٹاور نصب کیے جائیں گے۔ ٹاوروں کے درمیانی علاقے کی نگرانی کے لیے سیکورٹی کیمرے بھی لگائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ دیوار کے ساتھ ساتھ فوجی گاڑیوں کا گشت رہے گا”۔
اوپر بیان کردہ تمام تفصیلات کے بیچ حکومت نے ابھی تک کسی وضاحت کی زحمت نہیں کی خواہ اپنے ساتھ سیاسی عمل میں شریک فریقوں کو یا پھر عراقی عوام کو جو حکومت کی کارکردگی پر تنقید کے لیے ہر ہفتے مظاہرے کر رہے ہیں۔