صدر کی امریکا میں پہلی مرتبہ کسی مسجد میں آمد
امریکی صدر براک اوباما نے اسلام پر حملے کو تمام مذاہب پر حملہ قرار دیا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسرے ری پبلکن صدارتی امیدواروں کی مسلمانوں کے خلاف ”ناقابل معافی سیاسی غوغا آرائی” کی مذمت کی ہے۔
صدراوباما نے بدھ کو پہلی مرتبہ امریکا میں کسی مسجد کا دورہ کیا ہے۔اس موقع پر انھوں نے ایک جانب پاپ کلچر سے متاثر امریکیوں کا یہ خدشہ دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں اور دوسری جانب امریکی مسلم نوجوانوں کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے لیے معاشرے میں جگہ ہے۔
انھوں نے بالٹی مور کے باہر واقع مسجد میں تقریر میں کہا: ”ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ایک عقیدے پر حملہ تمام عقیدوں پر حملے کے مترادف ہے۔جب ایک مذہبی گروہ کو ہدف بنایا جاتا ہے تو اس کے خلاف بولنا ہم سب کی ذمے داری ہے”۔
ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کیلی فورنیا میں دسمبر میں فائرنگ کے واقعے میں چود؛ہ افراد کی ہلاکت کے بعد مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عاید کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔اس واقعے میں ایک مسلم جوڑے پر ملوّث ہونے کا الزام عاید کیا گیا تھا جو امریکی حکام کے مطابق داعش کی جنگ پسندی کے نظریے سے متاثر تھے۔
صدر اوباما کے بالٹی مور کی مسجد میں جانے کا مقصد امریکیوں کو اسلام کے دوسرے رُخ سے متعارف کرانا تھا۔ان کی تقریر سے قبل مسجد کے زیرانتظام ایک اسکول کے طلبہ اور اسکاوٹس نے مارچ کیا اور مسجد کے ہال میں امریکا اور میری لینڈ ریاست کے پرچم بلند کیے۔ہال میں عربی زبان میں اللہ کے ننانوے نام لکھے ہوئے تھے۔
صدر اوباما اسلامی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے جوتے اتار کر مسجد میں داخل ہوئے۔انھوں نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ ”آپ اپنے گرجا گھروں ،صومعوں یا مندروں کے بارے میں سوچیے تو مسجد بھی ان ہی کی طرح لگے گی”۔
مسجد میں تقریب کا باقاعدہ آغاز قرآن مجید کی تلاوت سے ہوا تھا۔ایک خاتون اور مرد نے رواداری سے متعلق قرآنی آیات کی تلاوت کی۔سامعین میں بچے اور مرد وخواتین موجود تھے۔مردوں نے سروں پر ٹوپیاں پہن رکھی تھیں اور خواتین نے حجاب اوڑھ رکھے تھے۔
صدر اوباما نے اپنی گفتگو میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ اور امریکا میں مسلمانوں کی مختصر تاریخ بیان کی۔انھوں نے بتایا کہ امریکا کے بانی تھامس جیفرسن نے جب امریکیوں کے مذہبی آزادی کے حق کی بات کی تھی تو انھوں نے خاص طور پر مسلمانوں کا حوالہ دیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ”تھامس جیفرسن کے مخالفین نے ان کا ٹھٹھا اڑانے کی کوشش کی تھی اور انھیں مسلمان قرار دیا تھا۔اس لیے میں پہلا امریکی صدر نہیں ہوں جس کے بارے میں اس طرح کی بات کی گئی ہے”۔واضح رہے کہ براک اوباما کے بارے میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ خفیہ طور پر مسلمان ہیں۔انھوں نے مسکراتے ہوئے سامعین کو بتایا کہ ”میں ایک اچھی مجلس میں ہوں”۔
بعد میں امریکی صدر مسجد کے جمنازیم میں بھی گئے اور وہاں انھوں نے چہچہاتے بچوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ ”ایک دن وہ بھی امریکا کے صدر بن سکتے ہیں۔آپ یہاں فٹ ہیں اورآپ مسلمان یا امریکی نہیں بلکہ مسلمان اور امریکی ہیں”۔