ریاست ہائے متحدہ امریکا میں رواں سال کے صدارتی انتخابی دنگل میں اب تک سب سے زیادہ متنازع اور میڈیا میں زیربحث رہنے والے ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار’’ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ کو مقامی مسلمانوں کی جانب سے اسلامی تعلیمات سے شناسائی حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ مسٹر ٹرمپ کو یہ دعوت ریاست “آئیووا‘‘ کے دی موین شہر کے مسلمانوں کی جانب سے دی گئی ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اپنے منفی خیالات تبدیل کریں اور اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
خبروں کے مطابق دی موین شہر کی سب سے پرانی جامع مسجد کے امام وخطیب علامہ طہ الطویل نے ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو تاریخی جامع مسجد کے دورے کی دعوت پیش کی ہے تاہم ابھی تک انہوں نے اس کا جواب نہیں دیا ہے۔ اس شہر میں دو ہزار کے قریب مسلمان آباد ہیں۔ ان کی بھی خواہش ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جامع مسجد آئیں، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ان سے تبادلہ خیال کریں تاکہ ان کے ذہن میں اسلام کے حوالے سے پیدا ہونے والے اشکالات کا اطمینان بخش جواب دیا جا سکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ اسلام کو سمجھنے کی دعوت ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے جب وہ امریکا سمیت دنیا بھر میں مسلمان مخالف جذبات کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں۔
خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کا آغاز سیڈر رابٹڈز شہر میں قائم مرکز اسلامی کے سامنے سے کریں گے۔ اگر وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اپنی منفی سوچ تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کے انتخابی عمل میں مسلمان ووٹر اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
سرکردہ مسلمان عالم دین طہ الطویل نے کہا کہ ’’ذاتی طور پر ٹرمپ ایک اچھے انسان ہیں، مگر ان کے خیالات منفی ہیں۔ وہ آگے دیکھنے کے بجائے مڑمڑ کر پیچھے دیکھنے کے قائل ہیں‘‘۔
چونکہ امریکی دستور میں مذاہب کی مکمل آزادی ہے۔ ایسے میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص جو ملک کے اعلیٰ ترین عہدے کا متمنی ہو کے لیے کسی ایک مذہب کو نشانہ بنانے کے منفی نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ امریکا میں لاکھوں مسلمان موجود ہیں۔ تمام مسلمانوں کو ’’داعش‘‘ اور ’’القاعدہ‘‘ سے نتھی کرتے ہوئے انہیں انتہا پسند کہنا امریکی معاشرے میں مذہبی آزادیوں کی روح کے خلاف ہے۔
دی موین شہر میں واقع مسلمانوں کی یہ مسجد 1930ء کے عشرے میں قائم کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے امریکا میں ’’ام المساجد‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔ ماضی میں یہ مسجد مسلمان تارکین وطن اور مقامی مسلمانوں کی دینی رہ نمائی کا فریضہ انجام دیتی رہی ہے مگراب ایک قدم آگے بڑھ کراب مسلمانوں کے اعتدال پسندانہ نظریات کے دفاع اور دعوتی میدان میں بھی سرگرم ہے۔