ماسکو: روس نے شامی صدر بشارالاسد کو اقتدار سے دستبردار ہونے کے لیے کہا ہے اور نہ انھیں ماسکو نے سیاسی پناہ دینے کی پیش کش کی تھی۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے یہ انکشاف ماسکو میں منگل کے روز اپنی سالانہ نیوز کانفرنس کے دوران کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ”مذکورہ دونوں صورتوں میں جواب ”ناں” میں ہے۔یہ بالکل نادرست بات ہے۔نہ تو کسی نے سیاسی پناہ کے لیے کہا تھا اور نہ کسی نے یہ پناہ دینے کی پیش کش کی تھی”۔
انھوں نے یہ بیان ان رپورٹس کے منظرعام پر آنے کے بعد دیا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ ایک آنجہانی روسی جنرل کو صدر ولادی میر پوتین نے بشارالاسد کے لیے یہ پیغام دے کر شام بھیجا تھا کہ وہ اقتدار سے دستبردار ہو جائیں۔روسی صدر پہلے ہی ان رپورٹس کی تردید کرچکے ہیں۔
روسی وزیرخارجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کی ثالثی میں اسی ہفتے جنیوا میں شروع ہونے والے شام امن مذاکرات اس وقت تک کامیاب نہیں ہوں گے جب تک کرد نمائندوں کو ان میں مدعو نہیں کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ کردوں کی بات چیت میں شرکت کے بغیر شام میں (جاری بحران کے) سیاسی حل کے لیے نتائج ہماری خواہش کے مطابق برآمد نہیں ہوں گے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے شام اسٹافن ڈی مستورا پر منحصر ہے کہ وہ کس اپوزیشن گروپ کو مذاکرات میں مدعو کرتے ہیں۔
سرگئی لاروف کا کہنا تھا کہ ”شام امن عمل کے بعض شرکاء بالکل ”ناقابل اعتبار” ہیں اور وہ مذاکرات کو مسترد کرتے رہے تھے۔جب کسی فریق کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف اجتماعی جنگ کے لیے شرائط عاید کی جاتی ہیں تو یہ شرائط بالکل غیرمتعلقہ ہیں۔مثال کے طور پر یہ کہنا کہ پہلے شام میں حکومت کی تبدیلی پر اتفاق کیا جائے،وغیرہ تو پھر ہم دہشت گردی کے خلاف اجتماعی طور پر لڑیں گے تو میرے خیال میں یہ ایک بڑی غلطی ہے”۔ان کا مزید میں کہنا تھا کہ داعش کے جنگجو اب افغانستان میں بھی قدم جمانے کی کوشش کررہے ہیں۔