امریکا نے ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں تعاون پر گیارہ اداروں اور شخصیات پر نئی پابندیاں عاید کردی ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ نے ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی ترقی کے لیے مواد مہیا کرنے پر یہ نئی قدغنیں ایران پر جوہری پروگرام کے تنازعے پر عاید پابندیوں کے خاتمے کے صرف ایک روز بعد لگائی ہیں۔
محکمہ خزانہ نے اتوار کو جاری کردہ ایک بیان میں بتایا ہے کہ پانچ ایرانی شہریوں اور متحدہ عرب امارات اور چین میں قائم کمپنیوں کے ایک نیٹ ورک کو امریکا کی بلیک لسٹ میں شامل کر لیا گیا ہے۔یہ نیٹ ورک تیسرے ملک میں بیٹھ کر دھوکا دہی کے ذریعے بیرون ملک سے ایران کو بیلسٹ میزائل پروگرام سے متعلقہ حساس اشیاء مہیا کررہا تھا۔
بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ پانچ افراد ایران کے لیے بیلسٹک میزائل کے اجزاء مہیا کرنے کی غرض سے کام کرتے رہے ہیں۔ محکمہ خزانہ کے قائم مقام انڈر سیکریٹری برائے دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس ایڈم جے زوبن کا کہنا ہے کہ ”ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے خطے اور عالمی سلامتی کو نمایاں خطرات لاحق ہیں اور اس پر بین الاقوامی پابندیاں جاری رہیں گی”۔
امریکی صدر براک اوباما نے بھی اتوار کو ایک تقریر میں کہا ہے کہ امریکا کے ایران کے ساتھ اب بھی گہرے اختلافات پائے جاتے ہیں اور وہ اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے خلاف پابندیوں کے نفاذ کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
اوباما انتظامیہ نے ایران میں قید امریکی شہریوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کی کامیابی کے بعد یہ نئی پابندیاں عاید کی ہیں۔تین ایرانی نژاد امریکی قیدیوں کے تبادلے کے تحت رہائی پانے کے بعد تہران سے واپس روانہ ہوگئے ہیں۔ایک امریکی عہدے دار نے بتایا ہے کہ ایک سوئس طیارہ واشنگٹن پوسٹ کے تہران میں بیورو چیف جیسن رضیان ،اداہو سے تعلق رکھنے والے پادری سعید عابدینی اور فلینٹ ،میشی گن سے تعلق رکھنے والے سابق میرین امیر حکمتی اور ان کے خاندانوں کے بعض ارکان کو لے کر تہران سے روانہ ہوگیا ہے۔تاہم ان میں رہائی پانے والا چوتھا قیدی نصرت اللہ خسراوی رودساری شامل نہیں تھا۔