انقرہ ۔ ترکی کے صدر احمد داود اوگلو نے بتایا ہے کہ ترک بری فوج نے شام اور عراق میں انتہا پسند تنظیم داعش کے ٹھکانوں پر 500 مرتبہ فائرنگ کر کے 200 انتہا پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔ یہ کارروائی داعش کی جانب سے استنبول کے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے اعلان کے بعد عمل میں آئی۔
انقرہ میں بیرون ملک تعنیات ترک سفیروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے داود اوگلو نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر ترکی انتہا پسندوں کے ٹھکانوں کو فضائی حملوں سے بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ “ہم ترکی کے سرحدی علاقوں سے داعش کو بیدخل کرانے تک اپنے ‘فیصلہ کن نقطہ نظر’ کا دفاع کرتے رہیں گے۔”
یاد رہے منگل کے روز ایک خودکش بمبار نے استنبول کے وسطی علاقے میں ایک معروف سیاحتی مقام پر دھماکا کر کے دس جرمن سیاحوں کو ہلاک اور متعدد دیگر کو زخمی کر دیا تھا۔ ادھر ترک وزیر داخلہ ایوکن آلا نے جمعرات کے روز اعلان کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دھماکے میں ملوث 7 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے۔
جرمن وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ خودکش حملے میں زخمی ہونے والے 7 سیاح استنبول کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ زخمیوں میں پانچ کی حالت انتہائی خطرے میں بیان کی جاتی ہے۔
سمندر پار ترک سفیروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایوکن آلا نے بتایا استنبول دھماکے میں ملوث ہونے کی شبے میں گرفتار افراد کی تعداد سات ہو گئی ہے۔ واقعہ کی بڑے پیمانے پر تحقیقات جاری ہیں۔ ترک حکام نے دھماکے کے بعد انتہائی سرعت سے یہ تفصیل میڈیا کو جاری کی کہ حملہ آور کا نام نبیل فضلی تھا اور اس کی عمر 28 برس ہے۔ ایک ہفتے قبل ہی مہاجرین کے ایک مرکز میں اس کے فنگر پرنٹس لئے گئے۔ داود اوگلو نے بتایا کہ جائے حادثہ سے ملنے والا حملہ آور کی کھوپڑی، چہرہ اور ناخن مہاجر کیمپ میں درج کئے جانے والے اس کے ذاتی ریکارڈ سے ملتے ہیں۔ خودکش حملہ آور ترکی میں شامی مہاجر کے طور پر داخل ہوا۔