اس زمانے میں جہاں نت نئی ایجا دی ترقیاں زمانے کی نگاہوں نے دیکھی ہیں ان سے بینا نہیں نا بینا بھی واقف ہیں ان نت نئی ایجادوں میں ایک اچھوتی ایجاد مذہب کے نام پر سیاست اور سودے بازی بھی ہے مذہب کے نام پر سیاست تو عام بات ہے ہر خاص و عام دیہاتی و شہری پڑھا لکھا وغیر پڑھا لکھا اتنا واقف ہے کہ کم از کم اس سلسلے میں تعلیم یافتہ وغیرتعلیم یافتہ کے درمیان کا فرق بھی مٹ کر رہ گیا۔ ہر ایک کی زبان پر یہی الفاظ ہوتے ہیں کہ یہ مندرمسجد کے جھگڑے بس راجنیتی اور سیاست ہیں اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں اس زمانے میں گندی سیاست کی وہ مثال ہے جس سے ماحول از حد پراگندہ اور متعفن ہوتا جا رہا ہے ایک غیر راہ روی اختیار کرنے والا انسان بھی مضطرب وپریشان ہونے لگتا ہے۔ ایسی سیاست سے بس خدا کی پناہ مانگنے لگتا ہے لیکن سوامی جیسے سیاسی کردار تو اپنے ڈراموں میں جان ڈالنے کے لئے سب کچھ کر جانے کو تیار ہیں چاہے ملک کی اینٹ سے اینٹ بج جائے اور پورے سماج کی پوری عمارت ہی منہدم ہوکر رہ جائے بس ان کی کرسی سلامت رہے اور ان کی سیاسی دوکان چمک جائے گنگا جمنی تہذیب و جس کے معنی ہندو مسلم ایکتا اور اتحاد کے علاوہ اور کچھ نہیں جو اس ملک کی سب سے قیمتی متاع اور قابل فخر بنیاد ہے رہے نہ رہے ان کو اس سے غرض نہیں ایسے ضعیف کردار لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ جب ملک کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی تو وہ کہاں محفوظ رہیں گے۔ اسی شاخ کو کاٹنا جس پر اپنا آشیانہ ہے کہاں کی عقلمندی ہے مذہب کے نام پر سیاست سے بڑھ کر مذہب کے نام پر سودے بازی کا معاملہ ہے سربرا منیم سوامی نے تو پوری وضاحت کے ساتھ کہہ بھی ڈالا اور وضاحت اس طرح کی کے (79993) تقریباً چالیس ہزار مسجدیں لے لو سواری نے اس سلسلے میں دریودھن اور بھگوان کرشن کی مثال دے کر کہا کہ مجھے امید ہے کہ مسلمان دریو دھن نہیں بنیں گے اس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ بگھوان کرشن نے دریو دھن کے سامنے پانڈؤں کو صرف پانچ گاؤں دینے کی تجویز رکھی تھی جسے دریودھن نے ٹھکرا دیا تھا۔ جس کے بعد مہا بھارت ہوئی تھی۔ اور پانڈوؤں نے کوروں کو ہرا دیا تھا۔ اب ہندوستان حالات مہابھارت کا اور آپسی جنگوں کا نہیں، بلکہ ہندو مسلم مثالی بھائی چارہ کا ہے۔ سب ہندو بھائی سبرمنیم سوامی جیسی پست، ذہنیت کے نہیں بلکہ ملنساری اور بھائی چارہ اور انسانیت کے جذبات سے سرشار ہیں۔ آپ ان کو اپنے غلط مقاصد کے لئے کبھی غلط طور پر استعمال نہیں کر سکیں گے اس کی ہزار ہا ہزار مثالیں سرزمین ہند نے دنیا کے سامنے پیش کرکے ایک اچھوتی مثال قائم کی ہے اور دنیا کو مختلف اہل مذاہب کی ملنساری کا درس دیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بڑی ہی بدنما آر، ایس، ایس کی مسلم نام والی ایک نام و نہاد غیر سیکولر تنظیم نے یہ بیان دی اہے۔ کہ رام مندر کی تعمیر ہوگی لیکن مسلمانوں کی رضا مندی کے ساتھ اس تنظیم نے یہ بھی جاہلانہ بیان دیا کہ کہ بابری مسجد مغل بادشاہ بابر کے نام پر بنی ہوئی ہے۔ جس سے مسلمانوں کو کوئی مذہبی وابستگی نہیں ہے۔ حضور والا۔ معاملہ بابر یا اکبر کا نہیں بلکہ معاملہ مسجد اور خدا کے گھر کا ہے۔ معاملہ یہ نہیں کس نے بنوائی معاملہ یہ ہے کہ وہ ہے کیا۔ اس طرح کا بیان وہی دے سکتاے ہیں جن کو اسلام کے حقائق سے کوئی واقفیت نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کی تعریف انھیں الفاظ میں کی جا سکتی ہے۔
قمر سیتاپوری
کھدرا، لکھنؤ