شام میں باغیوں کے زیرِ قبضہ قصبے مدايا کے ہزاروں رہائشیوں تک امداد کی فراہمی کا عمل تاخیر کا شکار ہوگیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے عالمی ادارۂ خوراک نے لبنانی سرحد کے قریب واقع اس محصور علاقے میں رہائش پذیر 40 ہزار افراد تک خوراک اور ادویات کی پہلی کھیپ اختتام ہفتہ پر پہنچانے کا امکان ظاہر کیا تھا۔
تاہم آخری وقت میں کچھ مسائل کی وجہ سے اب یہ امدادی قافلہ پیر کو ہی علاقے میں پہنچ پائے گا۔ مدايا سے ملنے والی بعض اطلاعات کے مطابق وہاں لوگ بھوک سے موت کے دہانے پر ہیں زندہ رہنے کے لیے پالتو جانور اور گھاس پھوس کھانے پر مجبور ہیں۔ حال ہی میں اس قصبے کے رہائشی عبدالوہاب احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بھوک کی وجہ سے لوگوں نے اب تو مٹی کھانی شروع کر دی ہے کیونکہ یہاں کچھ بچا ہی نہیں ہے۔گھاس اور پتے بھی برفباری سے مرچکے ہیں۔‘
مدایا جولائی سے شام کی سرکاری فوج اور اُس کی لبنانی اتحادی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے محاصرے میں ہے۔ پیر کو مدایا پہنچنے والے قافلے میں ایک ماہ کا راشن لدا ہو گا۔ تاحال یہ واضح نہیں کہ امداد کی مدایا آمد میں تاخیر کی وجہ کیا بنی تاہم بیروت میں بی بی سی کے نامہ نگار جم میور کا کہنا ہے کہ ایسے علاقے سے امدادی قافلے کا گزرنا ایک مشکل مرحلہ ہے جہاں فریقین برسرِپیکار ہوں اور علاقے کا محاصرہ کیا گیا ہو۔
مدایا تک امداد پہنچانے کے سلسلے میں شامی حکومت اور باغیوں کی قیادت کے علاوہ وہاں موجود متحارب کمانڈروں کے درمیان بھی اتفاقِ رائے ہو چکا ہے۔ مدایا جولائی سے شام کی سرکاری فوج اور اُس کی لبنانی اتحادی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے محاصرے میں ہے۔ امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ شامی دارالحکومت دمشق کے قریب واقع اس قصبے میں حالات ’بہت برے‘ ہیں۔ اسی قسم کا امدادی آپریشن پیر کو شمالی شام میں حکومت کے زیرِ کنٹرول دو دیہات کفرایہ اور فواہ میں بھی ہونا ہے اور یہاں 30 ہزار افراد باغیوں کے محاصرے میں ہیں۔ خیال رہے کہ شام کی 45 لاکھ آبادی ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہے اور ان میں سے چار لاکھ ایسے 15 محصور علاقوں میں رہتے ہیں جہاں انھیں ہنگامی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔