ترکی کی حکومت نے سعودی عرب اور ایران سے مطالبہ کیا ہے وہ سفارتی کیشدگی میں کمی لے کر آئیں، ترکی کا کہنا ہے کہ اس تنازعے سے علاقائی کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔
ترکی کے نائب وزیراعظم نعمان کرتلمس نے ایران میں سعودی سفارت خانے پر حملے کی مذمت کی اور سعودی عرب کی جانب سے معروف شعیہ عالم کو دی جانے والے سزائے موت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
خیال رہے کہ سعودی عرب نے ایران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے ہیں اور تجارتی تعلقات اور فضائی روابط بھی ختم کر رہا ہے۔ پیر کو سعودی عرب کے چند اتحادی ممالک نے بھی ایران کے خلاف سفارتی تعلقات کو ختم یا محدود کر دیا تھا۔ دوسری جانب امریکہ نے دونوں ممالک کو کشیدگی کم کرنے مطالبہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب میں شیعہ عالم شیخ نمر النمر سمیت دیگر 46 افراد کو موت کی سزا دینے کے بعد علاقے میں فرقہ ورانہ کشیدگی میں اضافے کے خدشات پائے جا رہے ہیں۔
خبررساں اداروں کے مطابق ترک نائب وزیر اعظم نعمان کرتلمس نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک فوری طور پر اس کشیدگی کو دور کریں جس سے مشرق وسطیٰ کے پہلے سے ہی کشیدہ حالات میں اضافہ ہوگا۔‘ انھوں نے ایران سے مطابق سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام سفارتی عملے کی حفاظت کریں اور کہا کہ ترکی ’سزائے موت کے تمام واقعات کے خلاف ہے خاص طور پر اگر یہ سیاسی محرکات کی حامل ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی بھی ملک میں سزائے موت کی حمایت کریں۔‘ ’سعودی عرب اور ایران دونوں ہمارے دوست ہیں اور ہم ان کے درمیان لڑائی نہیں چاہتے کیونکہ یہ وہ آخری عمل ہوگا جو اس خطے کو درکار ہوگا۔‘
ایران نے کہا کہ سفارتی تعلقات ختم کر کے سعودی عرب خطے میں کشیدگی اور تصادم کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے
پاکستان نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ سب سے پہلے سعودی عرب نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد اس کے قریبی اتحادی ملک بحرین نے بھی ایران کے ساتھ تعلقات ختم کرتے ہوئے ایرانی سفارت کاروں کو 48 گھنٹے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔