ملک کو ایک بارپھر تقسیم کردے گی نفرت کی سیاست
حیدرآبادمیں منعقد تحفظ جمہوریت کانفرنس میں نفرت کی سیاست کرنے والوں کومولانا سید ارشد مدنی کا انتباہ
نئی دہلی: جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدا رشدمدنی ایک بارپھر کہا ہے کہ موجودہ حکومت سی اے اے کو ہندومسلم مسئلہ بناکر پیش کررہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کا ہندوؤں اور مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، بلکہ اس قانون کو لاکر ملک کے سیکولردستورپر براہ راست حملہ کرنے کی افسوسناک کوشش کی گئی ہے، ممبئی کی طرزپر حیدرآبادمیں منعقدتحفظ جمہوریت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ یہ ملک کاسیکولردستورہی ہے جس نے پورے ملک کو اتحادکی ایک ڈورمیں باندھ رکھا ہے مگر اب اس ڈورکو کاٹنے کی درپردہ سازشیں ہورہی ہیں جس کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے
انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند اس کو لیکر فکرمنداس لئے ہے کہ آزادی کے بعد ملک کے دستورکو سیکولربنانے میں اس کے اکابرین کا ہی بنیادی کرداررہا ہے اس تعلق سے انہوں نے کہا کہ جس طرح ملک کی آزادی میں جمعیۃعلماء ہند نے ہراول دستہ کا کرداراداکیا تھا ٹھیک اسی طرح آزادی کے بعد بدقسمتی سے مذہب کی بنیادپر جب ایک نئی مملکت وجودمیں آئی تو کانگریس کے اندرسے ہی یہ آوازیں اٹھنے لگی تھیں کہ چونکہ ایک نئی مملکت وجودمیں آچکی ہے اس لئے اب ملک کا دستورہندوازم کی بنیادپر تیارکیا جانا چاہئے اور تب جمعیۃعلماء ہند کے اکابرین کانگریس لیڈروں کا ہاتھ پکڑکر بیٹھ گئے اور ان سے کہا کہ ہم سے کیا ہوا وعدہ آپ پوراکرین،
مولانا مدنی نے کہا کہ ایماندارلوگ تھے اس لئے ہمارے اکابرین کے مطالبہ کو انہوں نے تسلیم کیا اور ملک کے دستورکی بنیادسیکولرازم کے اصولوں پر رکھی گئیں، مگراب انہیں اصولوں کو ختم کرنے کی سازش ہورہی ہے اور سی اے اے اسی سلسلہ کی ایک مضبوط کڑی ہے، حیدرآبادکے میڈیا پلس آڈیٹوریم میں موجودلوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر سی اے اے کے تحت کسی کو شہریت دی جاتی ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں مگر اس قانون کی بنیادپر آپ صدیوں سے اس ملک میں آبادایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی شہریت چھین لیں یہ ہمیں قطعی منظورنہیں انہوں نے آگے کہا کہ ہندوستان صدیوں سے امن واتحادکا گہوارہ رہا ہے جس میں تمام مذاہب کے ماننے والے پیارومحبت سے رہتے آئے ہیں مذہبی رواداری ہندوستان کی خمیر میں شامل ہے اس لئے یہاں نفرت کی سیاست زیادہ عرصہ تک نہیں زندہ رہ سکتی اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے جھارکھنڈاور اب دہلی میں جس طرح بی جے پی کا صفایا ہوا وہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ لوگ میل ملاپ اور محبت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تاہم انہوں نے اس بات پر سخت افسوس کا اظہارکیا کہ جودہلی الیکشن کے دوران تمام تر اشتعال انگیزیوں کے باوجود پرامن رہی الیکشن کے بعد اچانک جل اٹھی
انہوں نے کہا کہ جس طرح الیکشن کے بعد بی جے پی کے ایک شکست خورہ لیڈرنے اشتعال انگیز بیان دیا اور سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کوسبق سکھانے کی دھمکی دی اس کے بعد فرقہ پرست عناصرنے پورے جمناپاردہلی کو خاک وخون میں نہلادیا انہوں نے کہا کہ مسلسل تین روزتک قتل وغارت گری کا بازارگرم رہا اور حکومت سوتی رہی پولس نے بھی اپنا فرض نہیں اداکیا چنانچہ فرقہ پرست عناصرجو کچھ کرسکتے تھے انہوں نے کیا، مگر یہ کس قدرافسوسناک ہے کے جس شخص کے اکسانے پر اتنی بڑی تباہی ہوئی تقریبا 49معصوم لوگوں کی جانیں گئیں اور کروڑوں کی املاک کا نقصان ہوا اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی جگہ حکومت نے اسے وائی پلس سیکورٹی مہیاکرادی ہے جس شخص کو جیل میں ہونا چاہئے تھا حکومت اسے سرکاری تحفظ فراہم کرارہی ہے آخراسے کس انصاف کے خانہ میں رکھاجائے؟مگر امید افزابات یہ ہے کہ جیسے ہی فسادکی آگ قدرٹھنڈی ہوئی ان علاقوں کے ہندومسلمان گھروں سے نکل کر باہر آگئے اور سب نے ایک زبان ہوکر کہا کہ ہم آپس میں مل جل کر رہنا چاہتے ہیں اور یہ مٹھی بھر لوگ ہی ہیں جو ہرجگہ امن وسکون کی فضاکو تباہ کرنے کے لئے آزادہوتے ہیں،
مولانامدنی نے کہا کہ فسادکے دوران بھی ہندومسلم اتحادزندہ رہا اور دونوں فرقے کے لوگوں نے ایک دوسرے کو فسادیوں سے بچانے کی کوشش کی انہوں نے آگے کہا کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ بہت سے مذہبی رہنماوں نے بھی فسادزدہ علاقوں کا دورہ کیا اور عوام سے امن واتحادکی اپیل کی ان میں شری شری روی شنکر بھی شامل ہیں، نفرت کی سیاست کرنے والوں کی اب آنکھ کھل جانی چاہئے اس لئے کہ اب عوامی سطح پر لوگ کھل کر فرقہ پرستی اورنفرت کی سیاست کے خلاف آواز بلند کرنے لگے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ سی اے اے کی طرح این پی آرکو لیکر بھی یہ پروپیگنڈہ ہورہا ہے کہ تنہا مسلمان ہی اس کی مخالفت کررہے ہیں مولانامدنی نے کہا کہ یہ بالکل غلط بات ہے ہم اس کے مخالف نہیں ہیں بلکہ اس میں جو نئی چیزیں شامل کی گئی ہیں ہم ان کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ہم انہیں ملک کے شہریوں بالخصوص مسلمانوں کے لئے خطرناک تصورکرتے ہیں جس طرزپر 1950 سے 2010تک مردم شماری ہوئی اسی طرزپر مردم شماری کرائی جائے ہم تعاون دینے کو تیارہیں مگر این پی آرکی موجودہ شکل ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے
انہوں نے آندھرااورتلنگانہ کی صوبائی حکومتوں پر زوردیا کہ وہ این پی آرکی موجودہ شکل کو نہ صرف مستردکردیں بلکہ اس کے خلاف اسمبلی میں تجویز بھی منظورکرائیں انہوں نے کہا کہ اگر ایسانہیں کیا گیا تو ہم جلد ہی یہاں ایک بڑاعوامی اجلاس کریں گے جس میں این پی آرکی موجودہ شکل کے خطرات سے آگاہ کرکے اس کے خلاف رائے عامہ ہموارکرنے کی کوشش کریں گے انہوں نے اسی تسلسل میں کہا کہ پچھلے تیرہ سوبرس سے مسلمان اس ملک میں امن اور خیر سگالی کے ساتھ رہتے آئے ہیں مگر اب مرکزی حکومت انہیں مذہب کی بنیادپر الگ تھلگ کرنے کی سازش کررہی ہے انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو اس ملک میں اقلیتوں کا کیامستقبل رہ جائے گا انہوں نے یہ بھی کہا کہ جن ریاستی حکومتوں نے سی اے اے این پی آراور این آرسی کے خلاف تجاویز منظورکی ہیں یا ان کی مخالفت کررہی ہیں وہاں کے ہندوومسلمان دونوں مل کر ان قوانین کی مخالفت کریں۔ نفرت کی سیاست کرنے والوں کو انتباہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نفرت کی سیاست سے ایک بارپھرملک تقسیم ہوجائے گا انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کی سیاست نہ صرف ملک اتحادبلکہ اس کی ترقی کے لئے بھی انتہائی نقصاندہ ہے امن واتحاداور ہر شہری کی شراکت داری سے ہی اس ملک کو ترقی کی شاہراہ پر آگے لے جایا جاسکتاہے، انہوں نے متنبہ کیا کہ نفرت اور تقسیم کی سیاست کرنے والے ابھی وقت ہے سنبھل جائیں ورنہ عوام خودانہیں سبق سکھادیں گے۔ دیگرشرکاء میں جناب محمد علی شبیر، جناب حامدمحمد خاں، جسٹس چندراکمار، جسوین کور، پروفیسرکوڈنڈہ رام، وغیرہ شامل تھے۔