دہلی میں مودی کے گجرات ماڈل کانفاذ
عادل فراز
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہلی کا فساد منظم منصوبندی کا نتیجہ تھا ۔شرپسندوں نے ایک مدت سے اس فساد کی تیاری کررکھی تھی مگر ہماری خفیہ ایجنسیاں اور دہلی انتظامیہ کو اس کی کانوں کان بھنک نہیں لگی۔فساد کے بعد کی جو تصویر سامنے آئی ہے اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ دہلی کو جلانے کی سازش گزشتہ کئی مہینوں سے چل رہی تھی ۔اس سے پہلے کئی بار شاہین باغ اور جامعہ ملیہ کے مظاہرین پر گولی چلاکر فساد کی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی تھی مگر شرپسندوں کو کامیابی نہیں ملی تھی۔لیکن بی جے پی کے بے لگام رہنمائوں کے نفرت آمیز اور اشتعال انگیز بیانات نے تشدد اور قتل عام کی راہ آسان کردی۔ ہزاروں شرپسنددہلی میں کھلے عام گھومتے رہے اور پولیس ۷۲گھنٹوں تک شہر جلنے کا انتظار کرتی رہی ۔فساد کے بعدسڑکوں کی صفائی کی گئی تو ٹرکوں اینٹے اورپتھر اٹھائے گئے ۔کیا اینٹوں اور پتھروں کی آسمان سے بارش ہوئی تھی ؟ ٹرکوں اینٹے اور پتھر شہر میں کہاں سے لائے گئے ؟۔تیز اب کی بوتلیں ،مہلک کیمیکلزاورغیر قانونی اسلحے سے لیس شرپسندوں کو گلیوں اور محلوں میں داخل ہوتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا؟ یہ حیرت انگیز ہے ۔ہر محلے کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ شرپسند وں کو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔یہ لوگ دہلی کے باشندوں کے درمیان کے نہیں تھے ۔تو پھر یہ بھیڑ کہاں سے آئی تھی ؟ یا پھر اس بھیڑ کو فساد کے لئے دہلی میں لایا گیا تھا ؟ایسے تمام سوالات ابھی تشنۂ جواب ہیں اور کبھی ان سوالوں کے جواب ملنے کی امید بھی نہیں ہے ۔
فساد کے بعد دہلی کی مسخ شدہ تصویر بتلا رہی ہے کہ شرپسندوں کی منشاء کیا تھی۔ انہوں نے اسکولوں ،مدرسوں ،مسجدوں اور بچوں تک کو نہیں بخشا۔کئی اسکول ایسے ہیں کہ جن میں ۲۴ گھنٹوں سے زیادہ شرپسند ٹہرے اور وہیں سے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے رہے مگر دہلی پولیس اور خفیہ ایجنسیاں ان کی اس منصوبہ بندی کے سامنے بے بس نظر آئیں۔موقعۂ واردات پر کتنے شرپسند گرفتار کئے گئے یہ رپورٹ ابھی جاری نہیں کی گئی ۔اگر پولیس اور انتظامیہ بروقت بیدار ہوجاتی تو دہلی میں اس قدر جانی و مالی نقصان نہیں ہوتا مگر پولیس خواب خرگوش کے مزے لوٹتی رہی اور دلّی جلتی رہی ۔افسوسناک صورتحال یہ رہی کہ دہلی جل رہی تھی اور وزیر اعظم نریندر مودی تمام تر سرکاری مشینری کے ساتھ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے استقبال میں مصروف تھے ۔ان کی طرف سے بروقت کوئی اقدام نہیں کیا گیا ۔وزیر داخلہ امیت شاہ بھی اس پورے منظرنامے سے غائب رہے ۔انکی طرف سے صرف ہنگامی جلسوں کی خبریں آتی رہیں مگر ایکشن نظر نہیں آیا۔دہلی پولیس کمشنر کی بے حسی اور غفلت پر تو بات کرنا ہی فضول ہے ۔اگر کسی فورس کا کپتان ہی اس قدر غفلت کا شکار ہو تو پھر پولیس کے رویے کی دہائی دینا چہ معنی دارد؟۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ دہلی پولیس کمشنر پر سیاسی دبائو تھا اس لئے انہوں نے دلّی کوجلنے کے لئے چھوڑ دیا۔دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کا رویہ نہایت شرمناک اور قابل مذمت رہا ۔ذرا ذرا سی بات پر گورنر ہائوس کے سامنے دھرنے پر بیٹھ جانے والے اروند کیجریوال فقط ٹویٹ کرکے اپنی ذمہ داری ادا کرتے رہے ۔فساد سے ٹھیک پہلے انہوں نے دہلی کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کی تھی ۔امیت شاہ سے یہ پہلی ملاقات تھی جس میں کیجریوال اس قدر خوش اور مطمئن دکھائی دیے ۔اس اطمینان اور خوشی کے اسباب کیا تھے یہ جاننا نہایت ضرور ی ہے؟ کیا اروند کیجریوال بھی ملائم سنگھ کی طرح چھپے ہوئے جن سنگھی نکلے ؟ یا پھر انہوں نے بھی دہلی کے عوام کو بی جے پی سرکار کے بھروسے چھوڑ دیاہے ؟۔ایسے نازک وقت میں ان کی طرف سے کوئی قابل ذکر بیان نہیں آیا اور نہ وہ کیجریوال نظر آئے جس کی ایمانداری اور بیباکی پر ریجھ کر دہلی کے عوام نے انہیں اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کیا ہے۔
متاثرین کے مطابق پولیس شرپسندوں کے ساتھ مل کر تشدد کررہی تھی ۔مسجدوں کے دروازے توڑے گئے ،آگ زنی ہوتی رہی ،بے گناہوں کو زدوکوب کیا گیااور ب گناہوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔پولیس ان تمام روح فرسا اور انسانیت سوز مظالم پر خاموش تماشائی بنی رہی یا پھر شرپسندوں کے ساتھ گھومتی نظر آئی۔متاثرین نے بتایاکہ پولیس کے ہاتھوں میں دوطرح کی بندوقیں تھیں ۔بعض پولیس والے بغیر بیچ کی وردی پہنے ہوئے تھے ۔مصطفیٰ آباد کی مسجد میں پولیس نے شرپسندوں کے ساتھ گھس کر آگ لگائی اور قرآن کریم کے نسخوں کو جلایا۔متاثرین کا کہناہے کہ پولیس نے ان کے گھروں سے نوجوانوں کو باہر گھسیٹ کر شرپسندوں کے حوالے کردیا ۔پولیس کا یہ رویہ انتہائی شرمناک اور دہشت زدہ کردینے ولاہے ۔مگر عوام کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ پولیس کا ایسا جانبدارانہ رویہ پہلی بارنہیں دیکھا گیا۔اس سے پہلے بھی ہاشم پورہ ،میرٹھ ،گجرات ،جمشید پور،مظفر نگر اور دیگر شہروں میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں پولیس کا کردار مشکوک رہاہے ۔ہاشم پورہ میں ہوئی مسلمانوں کی نسل کشی کے جیتےجاگتے ثبوت پولیس کے خلاف تھے مگر ہماری نام نہاد سیکولر حکومتوں نے کبھی ان ثبوتوں کی بنیاد پر کاروائی نہیں کی بلکہ ثبوتوں کو مٹاکر مجرموں کو بچانے کی کوشش کی گئی ۔نتیجہ یہ ہواکہ ہاشم پورہ قتل عام کے مجرم عدالت سے بری ہوگئے ۔یہی صورتحال دیگر فسادات میں اختیار کی گئی ۔گجرات قتل عام کے مجرموں کو نریندر مودی سرکار نے کلین چٹ دیدی،یعنی مجرموں نے ہی خود کو بے گناہ ثابت کردیا۔مظفر نگر فساد کے مجرموں کے خلاف اترپردیش کی یوگی سرکار نے مقدمے واپس لیکر یہ واضح کردیاکہ آگے بھی ایسے فسادات ہوتے رہیں گے اور سرکاریں اسی طرح فسادیوں اور شرپسندوں کی پشت پناہی کرتی رہیں گی ۔یہی صورتحال دہلی میں ہوئے حالیہ فساد میں اختیار کی جارہی ہے اور نریندر مودی سرکار شرپسندوں کو بچانے کی تگ و دو میں مصروف ہے کیونکہ مودی سرکار بخوبی جانتی ہے کہ شرپسند کون ہیں اور کس نے دہلی میں قتل عام کیاہے ۔دہلی کا فساد گجرات فساد کا ماڈل تھا ۔جس طرح گجرات فساد کے مجرم آزاد گھوم رہے ہیں بلکہ اقتدار میں بیٹھے ہوئے ہیں،اسی طرح دہلی میں فساد کے مجرموں کو سیاسی فائدے دیے جائیں گے اور انہیں بھی بی جے پی ٹکٹ دیکر پارلیمنٹ بھیج دے گی۔
دہلی فساد کی ساری ذمہ داری عام آدمی پارٹی کے رکن طاہر حسین کے سر منڈھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ظاہر ہے فرقہ وارانہ فساد کے بعد فاشسٹ طاقتوں کی سیاست کا دور شروع ہوگیاہے ۔کانگریس اور بی جے پی سمیت دیگر جماعتیں بے گناہوں کی لاشوں پر سیاست کی روٹیاں سیکنے میں مصروف ہیں ۔بے گناہوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح جیلوں میں ٹھونس دیا جائے گا اور گناہگا روں کو پھر کسی دوسرے فساد کے لئے محفوظ مقامات پر بھیج دیا جائے گا ۔اگر طاہر حسین کو مجرم تسلیم کر لیا جائے تو کیا پوری دہلی میں طاہر حسین نے ہی آگ لگائی تھی؟ کیا تمام تر اموات کے ذمہ دار تنہا طاہر حسین ہیں ؟ تو پھر وہ کون لوگ تھے جو گلی محلوں میں گھو م گھوم کر بے گناہوں کا قتل عام کررہے تھے اور گھروں کو نذر آتش کرکے’جے شری رام ‘ کے نعرے لگارہے تھے۔شرپسندوں کے درجنوں ویڈیو موجود ہیں جن میں صاف پتہ چلتاہے کہ بے گناہوں کے قاتل کون ہیں ؟ اور دلّی کو جلانے والے کون لوگ ہیں؟مگر انتظامیہ بے بس نظر آرہی ہے ۔
فساد کی آگ بھڑکانے والوں پر ابھی تک کوئی بڑی کاروائی نہیں ہوئی ۔کپل مشرا ابھی تک پولیس کی گرفت سے آزاد ہے ۔انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما جو عوام کو گولی مارنے پر اکسا رہے تھے ان کے خلاف ابھی تک ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی ۔دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس۔ مرلی دھر جنہوں نے فساد کے لئے بھیڑ کو اکسانے والے بی جے پی رہنمائوں پر پولیس سے کاروائی کرنے کے لئے کہا تھا ،راتوں رات ان کا تبادلہ پنجاب ہائی کورٹ میں کردیا گیا ۔یہ تبادلہ چیخ چیخ کر کہہ رہاتھاکہ دہلی میں فساد کی آگ لگانے والے کون ہیں ؟ مگر یہ نریندر مودی کا’نیا ہندوستان ‘ ہے جہاں نفرت کا زہر پھیلانے والے اور اشتعال انگیز تقریریں کرنے والوں کو نوازا جاتا ہے ۔دہشت گردی کے مجرموں کو پارلیمانی الکشن میںٹکٹ دیکر پارلیمنٹ بھیجنے میں مدد کی جاتی ہے ۔ہم انوراگ ٹھاکر ،پرویش ورما اور کپل مشرا کی اشتعال انگیز اور نفرت آمیز تقریروں پر کاروائی کا مطالبہ اقتدار میں بیٹھے ہوئے ایسے لوگوں سے کررہے ہیں جن کی زبان ان لوگوں سے زیادہ نفرت آمیز اور زہر سے بھری ہوئی ہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی سے لیکرامیت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ تک بی جے پی کے تمام تررہنما نفرت آمیز تقریروں کے لئے اپنی شناخت بناچکے ہیں ۔یوگی آدتیہ ناتھ تو کئ بار عوامی اسٹیج سے گولی مارنے کی بات کہہ چکے ہیں ۔ظاہر ہے کپل مشرا ،پرویش ورما اور انوراگ ٹھاکر جو کچھ کررہے ہیں بہت سوچ سمجھ کر کررہے ہیں ۔انہیں سیاسی پشت پناہی حاصل ہے اور نفرت کی سیاست ہی انہیں اقتدار میں لیکر آئی ہے اس لئے وہ کبھی اس سیاست سے دستبردار نہیں ہوسکتے ۔
ہمیں عدلیہ سے توقعات وابستہ ہیں حکومت سے نہیں !اگر حکومت چاہتی تو جس وقت انوراگ ٹھاکر،پرویش ورما ،کپل مشرا ،یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کے دوسرے رہنما نفرت آمیز تقریریں کررہے تھے ،اسی وقت ان پر سخت کاروائی کی جاتی ۔مگر جس پارٹی کا چہرہ متعدد فسادات کے بدنما داغوں سے ڈھکا ہوا ہو،وہ کبھی نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کاروائی نہیں کرسکتی۔ہندوستان میں عوام کی جان و مال محفوظ نہیں ہے۔اپنے حقوق کے لئے آئین ہند کے مطابق احتجاج کرنا بھی جرم ہوگیاہے ۔مظاہرین پر دن دہاڑے پولیس کی موجودگی میں گولیاں برسائی جاتی ہیں اور مجرموں کو نابالغ کہہ کر مراعات دی جاتی ہیں ۔ایسے نازک حالات میں اگر عدلیہ نے ذرا بھی غفلت برتی تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے ۔عدلیہ کو چاہئے کہ مجرموں کا احتساب کرے اور حکومت کی جوابدہی طے کرے ۔حکومت اس پورے معاملے کو فرقہ وارانہ رخ دے چکی ہے اور مجرموں کو سیاسی پشت پناہی دی جارہی ہے ،اس لئے اگر عدلیہ اپنا وقار محفوظ دیکھنا چاہتی ہے تو اسے جلد ہی مناسب اقدام کرنا ہوگا۔