غالب کو سمجھنے کے لئے ایک عمر ناکافی ہے: پرفیسر سید اختر حسین
لائف گیٹ ہیومن سوسائیٹی کے زیر اہتمام غالب : عندلیب گلشن نا آفریدہ کے عنوان پر یک روزہ سیمینار
ہندستان کی تاریخ میںغالب ایک ایسا نام ہے جس کی طرح عالی دماغ کو ئی نہیں ہوگا ۔ایک ہی وقت میں وہ ہر محاذ پر کامیابی کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا ہے۔اصناف سخن میں سے ہرصنف پر اس نے طبع آزمائی کی اور ہر جگہ وہ میر محفل اور میر کارواں نظر آتا ہے اور اس کے پورے نثری اور شعری ذخیرہ کو سمجھنے کے لئے ایک عمر درکار ہے اور سچ بات تو یہ ہے کہ وہ جس عہد میں پیدا ہوئے وہ عہد ان کے شایان شان تھا ہی نہیں ان کو تو اکبر اور شاہجہاں کے عہد میں پید اہونا چاہئے تھا ۔یہ باتیں پرو فیسرسید اختر حسین ،پروفیسرشعبہ ٔ فارسی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نے ریجنل سائنس سٹی لکھنؤ کے کانفرس ہال میںکہیں وہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے لائف گیٹ ہیومن سوسائٹی کے تحت منعقد ہونے والے یک روزہ سیمنار بعنوان’’غالب :عندلیب گلشن ناآفریدہ ‘‘ کے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ دے رہے تھے ۔انہوںنے کہا کہ غالب متنوع صفات اور شش جہات شخصیت کے مالک تھے وہ صرف ایک فرد نہیں تھے بلکہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے مرزا غالب نے اعلی ذہن ودماغ کو متا ثر کیا ان کی اردو اور فارسی کی شاعری نے لوگوں کے زاویہ ٔ نظر کو تبدیل کیا انہوں نے مزید کہا کہ مائیکرو سافٹ کے چیف ایگزیکٹیو’’ستیا ناڈیلا‘‘کو دنیا کے دیگر بڑے شاعروں کے کلام نے اتنا متاثر نہیں کیا جتنا ٖغالب کے کلام نے ان پر سحر کیا وہ حد درجہ غالب کے کلام سے متاثر ہیں اور جا بجا اپنی گفتگو میں وہ غالب کے اشعار کو نقل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،لیکن پروفیسر اختر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جدید نسل غالب سے نابلد ہوتی جارہی ہے اور ا یسے سیمینار کے انعقاد کا مقصد یہی ہے کہ نئی نسل ان سے متعارف ہو ۔
اس سے قبل کرن ورما کریٹیو آرٹسٹ ریجنل سائنس سٹی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے تمام مہمانوںکی آمد پر خوشی کا اظہار کیا اور ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا علاوہ ازیں انہوں نے سیمینار کا انعقاد کرانے والی سوسائٹی ’’لائف گیٹ ہیومن سوسائٹی ‘‘ کا تعارف بھی پیش کیا ۔انہوںنے بتایا کہ یہ سوسائٹی غریب بچوں کی مفت تعلیم اور دیگر سماجی کدمات مین مصروف ہے ۔انہوںنے کہا کہ سرکاری کی متعدد اسکیموں کو عوام تک پہنچانے میں تنظیم نمایا کردار ادا کر رہی ہے تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔انہوںنے کہا سوچھ بھارت ابھیان ،بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ اسکیم میں نمایاں کردار ادا کرکے لوگوں کو اس سے ہم مستفید ہونے میں تعاون کر رہے ہیں ۔اسی طرح سوسائٹی کے تحت ایک انسٹی ٹیو ٹ بھی قائم ہے جس میں بچوں کو انگلش اور کمپیوٹر کی تعلیم دی جا رہی ہے ۔انہوں نے اپنی تقریر میں مستقبل کے منصوبوں پر بھی روشنی ڈالی ،جس کے مطابق یہ سوسائٹی سماجی خدمات خاص طور سے تعلیمی میدان میں نمایا کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔
لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی کے استاد ڈاکٹر ارشدا لقادری نے اس افتتاحی اجلاس میںتعاررفی کلمات کو پیش کرتے ہوئے سیمینا ر کے موضوع پر سیر حاصل بحث کی اور غالب کے اشعار کی روشنی میںاس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی کہ وہ کیوں اپنے آپ کو عندلیب گلشن ناآفرید ہ سمجھتے تھے انہوں نے مزید کہا کہ غالب کے یہاں زندگی کے تلخ حقائق سے آشنائی ہوتی ہے اور ان کے دل کی آواز ہر دل کی آواز بن جاتی ہے انہوں نے اثناء گفتگو اس سیمینار کے مقاصد پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس سیمینار کا مقصد غالب کے ان پہلؤ وں کو منصہ شہود پر لانا ہے جو اب تک پردۂ خفا میں ہیں انہوں نے ہال میں موجود نوجوان محققین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ غالب
کو سمجھئے بھی اور اپنی زندگی میں ان کے اشعار کو اتاریے بھی ۔
سیمینار کے مہمان خصوصی جناب پروفیسر عقیل احمد ، وائس چانسلر ، انٹیگرل یونیورسٹی ،لکھنؤ نے غالب کے اشعار کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اپنے زمانۂ طالب علمی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ کیسے آل انڈیا ریڈیو سے نشر شدہ غالب کے اشعار سے محظوظ ہو اکرتے تھے ۔ غالب کی معنوی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غالب کے اشعار زندگی کے ہر پہلو پر ملتے ہیں اور یہی ان کی مقبولیت کاسبب ہے ۔انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ غالب کو سمجھنا اس دور کی ضرورت ہے کیونکہ وہ صرف ایک شاعر ہی نہیں بلکہ فلسفی تھا اور فلسفۂ کائنات کا بیان جس طرح اس کی شاعری میں ہے وہ اسی کا وصف خاص ہے لہذا فلسفۂ کائنات کو سمجھنے کے لئے غالب کے اشعار کا مطالعہ ازحد ضروری ہے۔ اس موقع پر بطور مہمان اعزازی جناب تقی عثمانی پرو وائس چانسلر انٹیگرل یونیورسٹی نے غالب کے فلسفہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ غالب نے زندگی کے اسرار ورموز سے جو فلسفیانہ انداز میں عقدہ کشائی کی ہے وہ ان کو ایک عظیم شاعر بناتی ہے ۔اس سیمنار کی افتتاحی تقریب کے اختتام پر سیمنار کے ڈائریکٹر اور لائف گیٹ ہیومن سوسائٹی کے سکریٹری محمد رضوان الحسن نے مہمانوں کی شکریہ ادا کیا ۔
اس افتتاحی نشست میں نظامت کے فرائض بھی ڈاکٹر ارشد القادری، اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ فارسی، لکھنؤ یونیورسٹی نے انجام دئے ،
افتتاحی اجلاس کے بعد دو تکنیکی سیشن منعقد ہوئے جس میں پہلے سیشن کی صدارت پروفیسر اختر حسین ، پروفیسر شعبۂ فارسی ، لکھنؤ یونیورسٹی نے کی ۔اس سیشن کا آغاز پروفیسر عمر کمال الدین کاکوروی، صدر شعبۂ فارسی، لکھنؤ یونیورسٹی کے مقالہ’’ لکھنؤ میں غالب کے کلیات نظم فارسی کی طباعت کی روداد‘‘ سے ہوا انہوں نے اپنے مقالہ میںلکھنؤ کے چھاپہ خانہ مطبع منشی نول کشور کے بارے میں غالب کی آراء کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ غالب اس مطبع سے شائع شدہ تصانیف کی حسن کتابت اور معیاری طباعت کے حددرجہ مداح تھے اور دلی کے مطابع کو وہ اپنا ہدف ملامت بناتے تھے ، اس کے علاوہ اس سیشن میں پانچ مقالات اور پیش کئے گئے ، جناب احمدعرفان علیگ نے ، غالب کا روزنامچہ برخطوط غالب ۔ ڈاکٹر شبیب انور علوی ، اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ فارسی ، لکھنؤ یونیورسٹی نے ، غالب کی مثنوی قادر نامہ کا ایک تنقیدی مطالعہ ۔ ڈاکٹر سرفراز مانو کیمپس لکھنؤ نے غالب اور اقبال کے مشترک شعری محرکات ۔ ڈاکٹر غلام معین الدین اسسٹنٹ پرفیسر مولانا آزاد کالج کلکتہ ، نے اقبال کے کلام پر غالب کا اثر ۔ڈاکٹر سمیع الدین اسسٹنٹ پروفیسر خضر پور کالج، کلکتہ نے غالب اور حافظ کے کلام میں ہم آہنگی کے موضوعات پر اپنے مقالات پیش کئے ۔
دوسرے تکنیکی سیشن کی صدارت پروفیسر عمر کمال الدین ، صدر شعبۂ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی نے کی ،جس میں محمد خبیب ، ریسرچ اسکالر شعبۂ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی نے ٖغالب کی مثنوی ابرگہربار کا ایک تنقیدی مطالعہ کے عنوان پر اپنامقالہ پیش کرتے ہوئے اس مثنوی کی امتیازی خصوصیات بیان کیں اور اس کے فنی مقام پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ محمد ابرار الحق جو اہر لعل نہرو یونیورسٹی نے دستنبو : مرزا ٖغالب کی دائری کے عنوان پراپنا پر مغز مقالہ پیش کئے اس کے علاوہ اس سیشن میں محمد فیروز عالم،جو اہر لعل نہرو یونیورسٹی ۔خالد محمد زبیر جو اہر لعل نہرو یونیورسٹی ، ڈاکٹر احمد میاں زیدی شعبہ ٔ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی ۔ ڈاکٹر محمد میاں زید ی شعبہ ٔ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی ، صالح ظفرشعبہ ٔ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی ، منت اللہ شعبہ ٔ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی، عاطفہ جمال شعبہ ٔ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی۔ عرشی بانوشعبہ ٔ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی، ثنا اظہرشعبہ ٔ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی نے بھی اپنے مقالات پیش کئے ۔تکنیکی سیشن کے بعد اختتامی نشست منعقد ہوئی جس کی صدارت ڈاکٹر ارشد القادری ، اسسٹنٹ شعبۂ فارسی ، لکھنؤ یونیورسٹی نے کی اور بحیثیت مہمان خصوصی پروفسر سید اختر حسین ، پروفیسر شعبۂ فارسی کواہر لعل نہرو یونیورسٹی نے کی ، اس موقع پر ڈاکٹر شبیب انور علوی اسسٹنٹ پروفیسرشعبہ ٔ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی ۔ڈاکٹر معین الدین آزاد کالج کلکتہ نے اپنے تاثرات کا ظہار کیا اس نشست کے صدر ڈاکٹر ارشد القادری ، اسسٹنٹ شعبۂ فارسی ، لکھنؤ یونیورسٹی نے اس موقع کہا کہ یہ سیمینار غالب فہمی کے نئے باب کو وا کریگا اخیر میںمحترمہ کر ن ورما کریٹیو آرٹسٹ ریجنل سائنس سٹی نے اس سیمینار میں شرکت کرنے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیاجب کہ اس اختتامی نشست میں نظامت کے فرائض محمد خبیب صدیقی ، ریسرچ اسکالر شعبۂ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی نے انجام دئے ۔اس سیمینار میں معزز ہستیوں اورزبان وادب سے وابستہ افراد نے شرکت کی جن میں محمد یاسرصاحب، حنیف صاحب اور محمد احمد صدیقی صاحب کے نام قابل ذکر ہیں